پاکستان کے صوبے بلوچستان کی ایران سے متصل سرحد یہاں کے لوگوں کے لیے معاشی شہ رگ تھی جو رواں سال سرحدی باڑ لگنے اور بندش کی وجہ سے مقامی افراد کے لیے نقصان کا سبب بن رہی ہے۔
نیاز محمد بلوچستان کے ایران سے متصل ضلع پنجگور کی سبزی منڈی میں ایک دکان چلاتے ہیں۔ ان کی دکان کا انحصار ایران سے آنے والی اشیا خورد و نوش کی فروخت سے وابستہ ہے لیکن ان کے کاروبار کو 25 جولائی سے سرحد کی بندش نے ختم کر دیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’جب سے سرحد بند ہوئی ہے مجھ سمیت بازار کے تمام دکانداروں کا کاروبار ختم ہوگیا ہے۔ ہم آٹا، بسکٹ، کیک سمیت ہر قسم کی کھانے پینے کی اشیا یہاں تک کہ دہی اور دودھ تک ایران کا فروخت کرتے تھے۔‘
پنجگور کے شہریوں کو ایک طرف بارشوں اور سیلاب کے باعث مشکل صورتحال کا سامنا ہے تو دوسری طرف وہاں پر سرحد کی بندش نے ان کی پریشانی مزید بڑھا دی تھی مگر حال ہی میں حکام نے شہریوں کے لیے مشکلات کے پیش نظر سرحد پر نرمی کرنا شروع کر دی ہے۔
آل پارٹیز اور بارڈر ایکشن کمیٹی نے کچھ عرصہ پہلے اسی معاملے پر احتجاج کرتے ہوئے دھرنا بھی دیا تھا۔
بارڈر ایکشن کمیٹی کے ترجمان سیف اللہ نے بتایا کہ ’ایرانی سرحد ہمارے لیے زندگی کی لکیر ہے۔ جہاں سے اشیا خورد و نوش، گیس سلینڈر اور محدود پیمانے پر پیٹرول بھی لانے کی اجازت ہوتی ہے۔‘
سیف اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پنجگور کی آبادی ایک اندازے کے مطابق تین لاکھ 17 ہزار سے زیادہ افراد پر مشتمل ہے جن میں سے دو لاکھ افراد براہ راست ایرانی سرحد کے کاروبار سے منسلک ہیں جبکہ باقی لوگ بلواسطہ منسلک ہیں اور تمام متاثر ہوئے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’پنجگور کی کل آبادی کا انحصار زراعت اور ایران سے آنے والے سامان کے کاروبار پر ہے۔ جس سے یہاں کی معیشت کا پہیہ چلتا ہے۔ اب اشیا خورد و نوش لوگوں کی دسترس سے باہر ہو گئی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’دھرنا دینے کا مقصد سرحد کی بندش کا خاتمہ اور دیگر مقامی ایشوز کے لیے تھا۔ جس کو ہم نےڈپٹی کمشنر پنجگور عبدالرزاق ساسولی کی یقین دہانی پر ختم کر دیا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ ’اگر ہم دیکھیں تو مکران کے خطے کا مکمل انحصار ایران پر ہے۔ وہی ان کو پال رہا ہے۔‘
سیف اللہ کہتے ہیں کہ ’سرحدی اضلاع کو محدود پیمانے پر ایران سے سامان لانے کی اجازت ملی ہے۔ کیوں کہ یہاں پر مہنگائی زیادہ ہے۔ بے روزگاری بھی ہے۔ ملازمت کے مواقع بھی کم ہیں۔ جس کی وجہ سے سرحد ہی ان کے روزگار کا واحد ذریعہ ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’حکام نے ہمیں یقین دہانی کرادی ہے کہ سرحد کو کھول دیا جائے گا۔ جسے کسی کام کے سلسلے میں بند کر دیا گیا تھا۔‘
پنجگور سے کوئٹہ 521 کلومیٹر کے فاصلے پر واقعہ ہے۔ جبکہ ایران سے متصل بلوچستان کا سرحدی علاقہ 909 کلو میٹر پر محیط ہے۔ جس پر اس وقت حکومت پاکستان نے باڑ لگانے کا کام شروع کر رکھا ہے۔
ایرانی سرحد سے متصل ضلع چاغی کے ایک اور علاقے ماشکیل کے مکینوں کی معیشت کا انحصار بھی ایرانی سرحد سے آنے والی اشیا پر تھا جو اب باڑ لگنے کے بعد متاثر ہو چکا ہے۔
ماشکیل کے ایک مقامی باشندے فاروق نے بتایا کہ ’پہلے یہاں ایرانی سرحد پر مختلف راستے تھے جہاں سے ہمیں سامان لانے میں کوئی مشکل نہیں تھی۔ یہ علاقہ چوں کہ بہت فاصلے پر ہے اس لیے یہاں پر اشیا خورد و نوش کی فراہمی کا مسئلہ تھا۔‘
فاروق نے بتایا کہ ’اب گیس سلینڈر ہمارے پاس تفتان براستہ دالبندین آتا ہے۔ پہلے یہاں سے ایرانی پیٹرول بھی سمگل ہوتا تھا۔ وہ بھی اب بند ہو گیا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اس کے ساتھ ہمارا جو کھانے پینے کا سامان ایران سے آتا تھا وہ بھی بند ہے۔ زیرو پوائنٹ پر صرف ایک گیٹ کھلا ہے۔‘
علاقے کی مقامی کاروباری شخصیت اور قبائلی رہنما شوکت عیسی زئی نے بتایا کہ ’ہر طرح سے بازار کا کام مکمل ہے۔ ایف بی آر نے بھی اس کو ٹرمینل قرار دیا ہے۔ لیکن اس کو کھولا نہیں جا رہا۔‘
شوکت نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اگر یہاں سے کاروبار کا سلسلہ شروع کیا جائے تو روزانہ کی بنیاد پر حکومت کو تین کروڑ روپے تک ٹیکس کی مد میں مل سکتے ہیں۔‘
شوکت کہتے ہیں کہ اس سے مقامی سطح پر بے روزگاری کا بھی خاتمہ ہو گا۔
دوسری جانب تفتان کے سیاسی و قبائلی شخصیات برکت علی عیسی زئی، ملک عیسی خان شیرزئی، اللہ نظر محمد حسنی اور سابق چیئرمین نواب خان موسیٰ زئی کا بھی موقف ہے کہ یہ بازار علاقے کی ترقی اور ملک میں ریونیو لانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
کوئٹہ چیمبر آف کامرس کے صدر فدا حسین دشتی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ایرانی سرحد پر چھ مارکیٹیں بنانے کا مںصوبہ ہے۔ تاہم اس میں تاخیر محکمہ انڈسٹری کی طرف سے ہو رہی ہے۔‘
فداحسین نے بتایا کہ ’تفتان میں بازار اور سرحدی گیٹ پر کوئٹہ چیمبر آف کامرس نے بھی سرمایہ کاری کی ہے۔ جس کا تمام کام مکمل ہو چکا ہے۔ ایف بی آر سے بھی منظوری ہو چکی ہے۔‘
دوسری جانب بارڈر ایکشن کمیٹی کے احتجاج میں آل پارٹیز اتحاد کے وائس چیئرمین اشرف ساگر نے بتایا کہ ’سرحد کی بندش نے پنجگور کو مفلوج کردیا اور یہاں کے بازاروں میں کوئی سرگرمی نہیں ہے۔‘
اشرف ساگر نے بتایا کہ ’پنجگور میں دوسرے علاقوں سے سامان کا پہنچنا مشکل ہوتا ہے۔ جبکہ ایرانی سرحد یہاں سے 50 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ جو اگر بند ہو تو یہاں پر کاروبار سمیت ہر نظام زندگی رک جاتا ہے۔‘
بلوچستان کے ایرانی سے متصل سرحدی علاقوں میں ضرورت کا سامان لانے کےلیے سکیورٹی دینے والے فرنٹیئر کور کو نرمی کی ہدایت کی گئی ہے۔
کمشنر مکران ڈویژن شبیراحمد مینگل نے بتایا کہ ایرانی حکام کی طرف سے کام کے سلسلے میں پنجگور سے متصل سرحدی گزرگاہ جیرک کو کھول دیا گیا ہے۔ جہاں سے لوگ اب کھانے پینے کی اشیا لاسکتے ہیں۔
شبیراحمد مینگل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ صوبے کے راستے سیلاب کی وجہ سے متاثر ہو چکے ہیں اس لیے سرحد پرایف سی حکام کو لوگوں کو ضرورت کا سامان لانے کی لیے خصوصی نرمی کی ہدایت کردی گئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’لوگوں کو ایران سے کھانے پینے کا سامان اور گیس سلنڈرلانے پراب رعایت دی گئی ہے۔‘
شبیر مینگل نے بتایا کہ ضلع کیچ میں ایرانی سرحد کے ساتھ مند کے علاقے میں مارکیٹ بن گئی ہے اور رواں ماہ اس کا افتتاح کردیا جائے گا۔
ایرانی سرحد سے ضلع کیچ میں مند اور تمپ کے علاقے منسلک ہیں۔ اس کے علاوہ گوادر سے سمندر اور خشکی کے راستے بھی ایک سرحد لگتی ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے نیشنل لاجسٹکس سیل سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر تاحال ان کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
گوادر سے ایران میں داخلے کے لیے سرحدی دروازے کو 250 کہا جاتا ہے۔ یہاں پر ایک مارکیٹ بنانے کا مںصوبہ بنایا گیا تھا جو تاحال غیر فعال ہے۔ جبکہ سمندری راستے سے بھی ایران سے پیٹرول کی سمگلنگ ہوتی ہے۔