اسرائیل نے پیر کو اعتراف کیا کہ ’قوی امکان‘ ہے کہ صحافی شیرین ابو عاقلہ پر گولی اسرائیلی فوجی سے ’غلطی‘ سے چلی ہو جو ان کی موت کا سبب بنی، جس کے بعد امریکہ نے احتساب کا مطالبہ کیا ہے۔
51 سالہ شیرین ابو عاقلہ جو فلسطینی امریکی ہیں کو 11 مئی کو جنین میں ایک پناہ گزین کیمپ کی کوریج کے دوران اسرائیلی ریڈ میں قتل کر دیا گیا تھا۔ وہ الجزیرہ سے منسلک صحافی اور دو دہائیوں سے فلسطین اور اسرائیل کے تنازعے پر رپورٹنگ کر رہی تھیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے ایک تازہ بیان میں اسرائیل کے اعتراف پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا: ’ہم اس افسوسناک واقعے میں اسرائیل کے جائزے کا خیر مقدم کرتے ہیں اور دوبارہ اس کیس میں احتساب کی اہمیت پر زور دیتے ہیں، مثلاً ایسی پالیسیاں اور طریقہ کار جس سے مستقبل میں ایسے واقعات نہیں ہوں۔‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اسرائیل پیر کو لمبے عرصے بعد اپنی تفتیش کا نتیجہ منظر عام پر لایا جس میں یہ کہا گیا کہ اس بات کا ’زیادہ امکان‘ ہے کہ ایک اسرائیلی فوجی نے مئی میں شیرین کو غلطی سے مغربی کنارے پر چھاپے کے دوران گولی ماری۔
اس معاملے میں یہ اسرائیل کا اب تک کا سب سے بڑا بیان ہے مگر ساتھ میں یہ بھی کہا گیا کہ شوٹنگ کے واقعے میں کسی کو قصوروار نہیں ٹھرایا جائے گا۔ اس سے قبل یہ بھی کہا گیا کہ فلسطینی صحافی جھڑپ کے دوران فلسطینی گولی کا شکار ہوئیں مگر اس سلسلے میں کوئی ثبوت نہیں دیا گیا۔
فسلطینی حکام اور ابو عاقلہ کے اہل خانہ اسرائیلی فوج کو قتل کی سزا سے بھاگنے کا الزام دے چکے ہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق شیرین ابو عاقلہ کے اہل خانہ نے اپنے بیان میں کہا، ’ہمارا خاندان اس نتیجے سے حیران نہیں ہے کیونکہ یہ کسی کے لیے بھی عیاں ہے کہ اسرائیلی جنگی مجرم اپنے جرائم کی تفتیش نہیں کر سکتے۔ تاہم، ہم شدید دکھی، افسردہ اور مایوس ہیں۔‘
رپورٹرزکے ساتھ بریفنگ میں، ایک سینیئر اسرائیلی فوجی اہلکار نے کہا کہ اس بات کا ’قوی امکان‘ ہے کہ ابو عاقلہ کو ایک بکتر بند گاڑی کے اندر موجود اسرائیلی فوجی نے غلطی سے گولی مار دی تھی جس کا خیال تھا کہ وہ کسی عسکریت پسند کو نشانہ بنا رہا ہے۔
فوجی بریفنگ کے رولز کے تحت نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے اہلکار نے کہا، ’اس (فوجی) نے اس کی غلط شناخت کی۔۔۔ رئیل ٹائم میں اس کی رپورٹیں بالکل غلط شناخت کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ہم جانتے ہیں کہ اس نے گولی چلائی، لیکن یہ بہت ممکن ہے کہ یہ دوسرے فائر سے ہوا ہو۔‘
لیکن اسرائیلی فوج نے اپنے اس دعوے کی تائید کے لیے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا کہ جس وقت ابو عاقلہ کو گولی ماری گئی تھی اس وقت ایک شدید جھڑپ جاری تھی۔ ویڈیوز کے ساتھ ساتھ عینی شاہدین کے بیانات میں آس پاس عسکریت پسندوں کی موجودگی کا کوئی ثبوت نہیں دکھایا گیا ہے اور شیرین کو گولی مارنے سے قبل علاقہ کئی منٹ تک خاموش دکھائی دی تھا۔
یہ بھی واضح نہیں تھا کہ ابو عاقلہ، جنہوں نے اس وقت ہیلمٹ اور جیکٹ پہنی ہوئی تھی جس پر ’پریس‘ لکھا ہوا تھا، انہیں عسکریت پسند کیسے سمجھا جا سکتا ہے۔ اہلکار نے صرف اتنا کہا کہ گاڑی کے اندر سے سپاہی کا وژن ’بہت محدود‘ تھا، جس کی وجہ سے جلدی میں غلط شناخت کیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ تحقیقات کے نتائج چیف ملٹری پراسیکیوٹر کو بھیجے گئے، جو ان سے مطمئن ہیں اور مجرمانہ تفتیش کے خلاف فیصلہ کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کی موت پر کسی پر الزام نہیں لگایا جائے گا۔
اسرائیل کے انسانی حقوق کے گروپ B'Tselem نے فوج پر ’وائٹ واش‘ کرنے کا الزام لگایا جب کہ ابو عاقلہ کے اہل خانہ اور فلسطینی اتھارٹی دونوں نے کیس کو ہیگ میں انٹریشنل کریمنل کورٹ کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔ آئی سی سی نے غزہ اور مغربی کنارے دونوں میں اسرائیل کی طرف سے ممکنہ جنگی جرائم کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔
فلسطینی صدر محمود عباس کے ترجمان نبیل ابو ردینہ نے اس اعلان کو ’ان کے قتل کی ذمہ داری سے بچنے کی ایک اور اسرائیلی کوشش‘ کے طور پر مسترد کر دیا۔
انہوں نے کہا کہ تمام شواہد یہ ثابت کرتے ہیں کہ ’اسرائیل مجرم ہے، اس نے شیرین کو قتل کیا، اور اسے جرم کا ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے۔‘
الجزیرہ کے مقامی بیورو چیف ولید العمری نے کہا کہ پیر کی رپورٹ ’واضح طور پر مجرمانہ تحقیقات کے آغاز کو روکنے کی کوشش تھی۔‘
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے اسرائیلی نتائج کو ’دیر سے اور نامکمل‘ قرار دیا۔