سٹیٹ بینک آف پاکستان نے ایک فیصد اضافے کے ساتھ شرح سود 13.25 فیصد کرنے کا فیصلہ کرلیا، تاہم ماہرینِ معاشیات کے مطابق پاکستان میں شرح سود کے اس ایک فیصد اضافے سے معاشی سرگرمی میں مزید کمی اور اندرونی اور بیرونی قرضوں میں ہوشربا اضافہ ہوگا۔
مرکزی بینک کے گورنر باقر صادق نے منگل کے روز اس سال کی تیسری مالیاتی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ شرح سود میں یہ اضافہ دو ماہ کے لیے قابل عمل ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ شرح سود میں اضافہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے تناظر میں کیا گیا اور اس اقدام سے قیمتوں میں استحکام پیدا ہونے کے امکانات ہیں، تاہم ماہرین شرح سود میں اضافے کے باعث کئی معاشی مسائل کی پیش گوئی کرتے ہیں۔
ماہرِ معاشیات اور نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) کے استاد ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے شرح سود میں اضافے کو پاکستان کے ساتھ ظلم قرار دیا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا: ’شرح سود میں ایک فیصد اضافہ پاکستانی معیشت کو تباہ کرنے کا اقدام ہے۔ ایسا کرکے انہوں نے بہت ظلم کیا ہے۔‘
ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے کہا کہ اس سے ہماری معیشت درمیانی قیمت کی معیشت سے اونچی قیمت والی معیشت میں تبدیل ہو جائے گی۔
اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’شرح سود میں اضافے سے ہر چیز کی قیمت بڑھے گی۔ جس سے ہم بین الاقوامی منڈی میں مقابلہ نہیں کر سکیں گے اور یوں جو تھوڑی بہت برآمدات ہیں وہ بھی ختم ہو جائیں گی۔‘
ڈاکٹر اشفاق حسن خان کا کہنا تھا: ’یہ سب آئی ایم ایف کی ایما پر کیا جا رہا ہے۔ جس کے ساتھ پاکستان نے دراصل اپنے قرضے بڑھانے کا معاہدہ کیا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف کے معاہدے کے باعث پاکستان قرضوں کے بوجھ تلے بری طرح دب جائے گا۔
یاد رہے کہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے حال ہی میں آنے والے چھ ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کے معاہدے میں امید ظاہر کی ہے کہ مناسب حد تک سخت مالیاتی پالیسی اپنا کر پاکستان افراطِ زر کو کم کر سکتا ہے۔
لندن سے شائع ہونے والے اخبار فنانشل ٹائمز کے پاکستان میں نمائندہ خصوصی فرحان بخاری کا کہنا تھا: ’چونکہ اشیاء کی کھپت بڑھ گئی ہے تو شرح سود میں اضافے کا مقصد معاشی سرگرمیوں کو کم کرنا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا خیال تھا کہ شرح سود میں اضافے سے افراطِ زر کے بڑھ جانے کا خطرہ ہمیشہ رہتا ہے۔
معاشی امور پرلکھنے والے صحافی ذیشان حیدر کے خیال میں حکومت کمرشل بینکوں سے مزید قرضے لینے کا ارادہ رکھتی ہے، اسی لیے شرح سود میں اضافہ کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا: ’شرح سود کم ہو تو نجی شعبے میں بینکوں سے قرضے لینے کا رجحان زیادہ ہوتا ہے اور حکومت کو قرض کے لیے رقم دستیاب نہیں ہوتی اور جب حکومت نجی بینکوں سے قرضے لینے کا فیصلہ کرتی ہے تو شرح سود بڑھا دیا جاتا ہے تاکہ نجی شعبے کی قرضوں سے متعلق حوصلہ شکنی ہوسکے۔
ذیشان حیدر نے مزید کہا کہ اگرچہ حکومت نے نجی بینکوں سے مزید قرضے نہ اٹھانے کا عندیہ دے رکھا ہے لیکن اس اقدام سے لگتا ہے کہ حکومت ارادہ تبدیل کرکے قرضوں کے لیے نجی بینکوں سے رجوع کرے گی۔
ذیشان حیدر کا کہنا تھا: ’بیرونی اور اندرونی قرضوں کی مَد میں حکومت کو بہت بڑی بڑی ادائیگیاں کرنا ہیں جبکہ اس کے مالیاتی ٹارگٹس بھی پورے نہیں ہو رہے تو ایسے میں حکومتی اخراجات پورے کرنے کے لیے لامحالہ مزید قرض کی ضرورت پڑے گی، جو نجی بینکوں سے ہی مل سکتے ہیں۔
ڈاکٹر اشفاق حسن خان کے مطابق: ’شرح سود بڑھانے سے ملکی قرضوں پر جو سود لگتا ہے اس میں بھی اضافہ ہو گا۔‘
فرحان بخاری نے بھی اس بات سے اتفاق کیا کہ ’شرح سود میں اضافے سے قرضوں کے حجم اور ان پر لگنے والے سود میں اضافہ ہوگا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ اس اقدام سے ملک میں کاروباری سرگرمیوں، روزگار کے مواقعوں، نوکریوں، کاروبار اور تجارت کے منافع میں مزید کمی کا رجحان دیکھنے میں آئے گا۔
ذیشان حیدر کا خیال تھا کہ شرح سود میں اضافہ پاکستان میں کنزیومر بینکنگ کو بھی متاثر کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اب بینک سے قرضوں پر لی جانے والی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔
اس سلسلے میں انہوں نے بینکوں سے قرض پر حاصل کی جانے والی گاڑیوں کا خصوصاً ذکر کیا اور کہا کہ اب یہ گاڑیاں صارفین کو زیادہ قیمت میں میسر ہوسکیں گی۔
مالیاتی پالیسی کیا ہے؟
مالیاتی پالیسی کے ذریعے مرکزی بینک ملک میں شرح سود پر اثر انداز ہونے اور معیشت میں پیسے کے ارتکاز کو یقینی بنانے کے لیے مختلف طریقے استعمال کرتا ہے، جن کا مقصد قیمتوں اور مالیاتی منڈیوں میں استحکام برقرار رکھنا ہوتا ہے۔
مالیاتی پالیسی کوئی مستقل پالیسی نہیں ہوتی، نہ ہی اس سے کسی ملک کی معیشت پر کوئی دور رس اثرات پڑتے ہیں بلکہ یہ ایک عارضی قدم ہوتا ہے۔ مالیاتی پالیسی ضرورت کے تحت بنائی اور لاگو کی جاتی ہے۔