لبنان میں جعمے کو ایک دن میں پانچ بینک ڈکیتیاں ہوئیں جن میں صارفین نے اپنی ہی جمع پونجی نکلوانے کے لیے بینک پر دھوا بول دیا۔
لبنان دو سال سے زیادہ عرصے سے معاشی بحران میں پھنسا ہوا ہے جس میں اس کی کرنسی کی قدر گر چکی ہے اور بینکوں نے ڈیپازٹ رقوم نکلوانے پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق جمعے کو ایک مسلح شخص، جن کی شناخت عبد سوبرا کے نام سے ہوئی ہے، دارالحکومت بیروت کے مضافاتی علاقے میں بلوم بینک میں داخل ہوئے اور عملے کو ان کی رقم دینے کے لیے کہا۔
بعد میں انہوں نے اپنی گن سکیورٹی فورسز کے حوالے کر دی لیکن سورج غروب ہونے تک بینک کے اندر ہی رہے۔
انہوں نے اپنے تین لاکھ ڈالر کے لیے بینک کے عملے کے ساتھ مذاکرات کیے۔
اس دوران بینک کے باہر ایک ہجوم جمع رہا جس نے عبد سوبرا کے حق میں نعرے لگائے۔
انہوں نے روئٹرز کو بتایا: ’میری کچھ ذمہ داریاں اور قرضے ہیں۔ سوتے جاگتے لوگ اپنے پیسوں کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ میرے پاس رقم موجود ہے۔ وہ یہ رقم مجھے کیوں نہیں دیتے تاکہ میں لوگوں کی ادائیگی کر سکوں۔‘
اسی طرح جنوبی قصبے غازیہ میں ایک شخص پستول اور پیٹرول سے بھرا جری کین لے کر اپنے بیٹے کے ساتھ بائیبلوس بینک میں داخل ہوئے اور عملے کو ان کی رقم دینے کے لیے کہا۔
لبنانی ٹیلی ویژن کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ان کے پاس کھلونا پستول ہو۔ بینک کے سکیورٹی گارڈ کے مطابق صارف نے پیٹرول کا جری کین فرش پر خالی کر دیا۔
اے ایف کے نمائندوں اور ایک سکیورٹی ذرائع کے مطابق جمعے کو تین ایسی وارداتیں بیروت میں ہوئیں اور دو ملک کے جنوبی حصوں میں۔
فنڈز تک رسائی کے لیے کھاتے داروں کے مدد کی خاطر بنائی گئی ڈیپازٹرز یونین نے لوگوں کے بینکوں پر دھاوے کو ’کھاتے داروں کی تحریک‘ اور بینکوں کی طرف سے عائد پابندیوں کے جواب میں قدرتی اور جائز ردعمل قرار دیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈیپازٹرز ایسوسی ایشن کے رکن ابراہیم عبدااللہ نے کہا: ’تین سال کے بعد ہم سڑکوں پر نکل کر آواز اٹھا رہے ہیں مگر ہمارے مطالبے پورے نہیں کیے جا رہے۔ انہوں نے ہمارے پاس طاقت کے ذریعے اپنا حق حاصل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں چھوڑا ہے۔‘
لبنان میں بینکوں کی ایسوسی ایشن کے مطابق پچھلے ہفتے سات بینک برانچوں کو ’ڈیپازٹر ڈکیتی‘ کا نشانہ بنایا گیا جس پر بینکوں نے پیر سے تین دن کی بندش کا اعلان کر دیا ہے۔
جمعے کو مختلف بینکوں پر دھاوے کے بعد وزیر داخلہ باسم مولوی نے سہ پہر کو ہنگامی اجلاس طلب کر لیا۔ اجلاس کے بعد انہوں نے صحافیوں کو بتایا: ’اس انداز میں حق کا دعویٰ کرنے سے نظام بکھر سکتا ہے اور دوسرے کھاتے دار اپنے حق سے محروم ہو جائیں گے۔‘
پبلک پراسیکیوٹر غسان اوئیدات نے پولیس کو ہدایت کی ہے کہ وہ ان ڈکیتیوں میں ملوث تمام افراد کو گرفتار کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ وارداتیں لبنان میں بینکاری کے شعبے کو کام کرنے سے روکیں گی اور مزید مالی اور اقتصادی بحران پیدا ہوں گے۔
بینک ڈکیتیوں کے اس نئے سلسلے سے دو دن قبل ہی ایک نوجوان خاتون کارکن نے بیروت میں بلوم بینک کی برانچ پر ایندھن اور کھلونا پستول کے ساتھ دھاوا بول کر اپنی بہن کی جمع پونجی کا مطالبہ کیا تھا، جن کے سرطان کے علاج کے لیے رقم کی ضرورت تھی۔
صالی حافظ نامی اس خاتون نے بینک سے تقریباً 13 ہزار ڈالر لیے اور فوری طور پر سوشل میڈیا پر ہیرو بن گئیں۔
بیروت کی 28 سالہ رہایشی کارلا شہاب نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا: ’صالی کو ایسا کرنے کا مکمل حق تھا۔ میں بہادر ہوتی تو میں بھی ایسا ہی کرتی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ بینک چور ہیں اور امیر افراد اور حکومت انہیں تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔
دوسری جانب 2022 کے بجٹ کی منظوری کے لیے پارلیمنٹ کا اجلاس کورم ختم ہونے کے بعد جمعے کو 26 ستمبر تک ملتوی کر دیا گیا جب کچھ قانون ساز واک آؤٹ کر گئے۔
اس اجلاس میں بجٹ کی منظوری لبنان کے لیے بین الاقوامی قرض دہندگان سے اربوں ڈالر کے حصول کی خاطر اصلاحات کے حصے کے طور پر ضروری تھی۔