پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں راولاکوٹ کے ایک سرکاری کالج میں ایک کتاب میلے کا انعقاد ہوا، جہاں پر ضلعی انتظامیہ نے کشمیر کی تاریخ سے متعلق ’ممنوعہ‘ سمجھی جانی والی ایک کتاب کی کاپیاں ضبط کر لیں-
’دیوانوں پہ کیا گزری‘ نامی کتاب سعید اسعد نامی مورخ کی تالیف کردہ ہے اور اس کتاب میں 1971 میں سری نگر سے اغوا کر کے لاہور لائے گئے انڈین طیارے ’گنگا‘ کی ہائی جیکنگ اور اس کے بعد کے واقعات کی کہانی ہے-
ضلعی انتظامیہ کے مطابق اس کتاب پر محکمہ داخلہ نے پابندی عائد کر رکھی ہے، تاہم اس کا کوئی باقاعدہ نوٹیفکیشن سامنے نہیں آیا-
راولاکوٹ کے گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج میں یہ کتاب میلہ گذشتہ تین روز سے جاری ہے اور اس میلے میں میرپور، اسلام آباد، لاہور اور مختلف شہروں سے درجن بھر پبلیشرز نے اپنے اپنے سٹال لگا رکھے ہیں۔
کالج کے پرنسپل پروفیسر پرویز کیانی نے ٹیلی فون پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کالج میں کتاب میلہ لگانے کا یہ سلسلہ کئی سالوں بعد دوبارہ شروع ہوا اور اس میں انتظامی افسران، علاقے کی علمی و ادبی شخصیات کے علاوہ نوجوانوں نے بھی کافی دلچسپی لی۔
پرویز کیانی نے بتایا: ’ہفتے کے روز مقامی مجسٹریٹ نے پولیس کے ہمراہ چھاپہ مار کر ایک سٹال سے کچھ کتابیں ضبط کی ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں تو وہ کہنے لگے ہمیں اوپر سے حکم آیا ہے۔‘
پرویز کیانی کہتے ہیں کہ انہوں نے مقامی ڈپٹی کمشنر سے بھی اس حوالے سے بات کی کہ اگر کوئی ممنوعہ کتاب فروخت ہو رہی ہے تو ان کو آ کر بات کرنی چاہیے۔
’کالج کے اندر ہونے والی سرگرمیوں کی ذمہ داری میری ہے۔ انتظامیہ اس طرح مداخلت نہیں کر سکتی۔ مگر وہ کہتے ہیں ہمیں اوپر سے حکم ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔‘
ان کے بقول جب کتاب میلہ شروع ہوا تو پونچھ ڈویژن کے کمشنر انصر یعقوب نے اس کا افتتاح کیا۔ ’محکمہ ہائیر ایجوکیشن کے ناظم اعلیٰ اس میلے میں شریک ہوئے کسی کو کوئی اعتراض نہیں تھا مگر آخری دن اچانک کیوں چھاپہ مارا گیا۔ یہ کوئی نہیں بتا رہا۔‘
ضبط کی گئی کتاب کے مصنف اور سٹال کے منتظم سعید اسعد نے بتایا کہ سٹال سے اس کتاب کی 20 کے لگ بھگ کاپیاں فروخت ہوئیں جبکہ سات کاپیاں چھاپے کے وقت سٹال پر موجود تھیں جنہیں مجسٹریٹ اپنے ساتھ لے گئے۔
سعید اسعد کے بقول مجسٹریٹ نے اس دوران کوئی تحریری حکم نامہ نہیں دکھایا البتہ اپنے موبائل فون میں موجود ایک فہرست کو دیکھ کر اس کا موازنہ سٹال پر موجود کتابوں سے کیا اور پھر اس کتاب کی ساری کاپیاں اٹھا لیں۔
’مجسٹریٹ کے ساتھ سول کپڑوں میں ملبوس کچھ اہلکاروں نے سٹال سے کشمیر کے جھنڈے اور بیج اٹھانے کی کوشش کی تاہم مجسٹریٹ نے انہیں منع کر دیا اور کتابوں کے علاوہ انہوں نے کوئی چیز نہیں اٹھائی۔‘
اس کتاب کے متعلق مصنف سیعد اسعد نے بتایا کہ یہ 1971 میں سری نگر سے لاہور لائے گئے بھارتی طیارے گنگا کے اغوا میں شامل کرداروں کے انٹرویوز اور کہانیوں پر مبنی ہے۔
اس طیارے کے اغوا کاروں ہاشم قریشی، اشرف قریشی کے علاوہ بعد میں اس کیس میں شامل کیے گئے کشمیر حریت پسند رہنما مقبول بٹ، عبدالخالق انصاری اور دوسرے لوگوں کے ساتھ جو سکول جیل میں ہوا یہ اس کی کہانیاں ہیں۔
ان کے بقول یہ کتاب کا تیسرا ایڈیشن ہے یہ کتاب 2003 میں پہلی مرتبہ شائع ہوئی۔ کتاب پر پابندی سے متعلق سوال پر سعید اسعد نے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اس حوالے سے مطلع نہیں کیا گیا۔
کتابیں ضبط کرنے والے ڈیوٹی مجسٹریٹ اور تحصیلدار راولاکوٹ زاہد چوہان کے مطابق یہ کتاب محکمہ داخلہ کی جانب سے ممنوعہ قرار دی گئی کتابوں کی فہرست میں شامل ہے اور اسی وجہ سے سیکورٹی اداروں کی رپورٹ پر کارروائی کی گئی۔
ٹیلی فون پر انڈیپنڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے زاہد چوہان نے اس واقعے یا کتاب سے متعلق زیادہ تفصیلات بتانے سے گریز کیا اور کہا: ’انہیں اعلیٰ حکام کی جانب سے حکم ملا تھا اور انہوں نے اس پر عملدرآمد کر دیا۔ اس کتاب پر کب اور کیوں پابندی لگائی گئی اس بارے میں معلومات محکمہ داخلہ ہی مہیا کر سکتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
2016 میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے محکمہ داخلہ نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے 15 کتابوں اور ایک نقشے پر پابندی عائد کی تھی۔ ان میں زیادہ تر کتابیں سعید اسعد نامی مصنف کی ہی ہیں جبکہ معروف حریت پسند کشمیری رہنما مقبول بٹ کی دو کتابیں بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں 50 کے لگ بھگ کتابوں پر پابندی عائد کی گئی ہے جن میں سب سے زیادہ تعداد سعید اسعد کی کتابوں کی ہے جبکہ پابندی کا شکار ہونے والی کتابوں میں مقبول بٹ، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے سابق چیف جسٹس محمد یوسف صراف، بال کے گپتا، کرشنا مہتا اور پروفیسر محمد عارف خان کی کتابوں سمیت کئی دوسری کتابیں شامل ہیں۔
سعید اسعد کون ہیں؟
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ’متنازعہ‘ سمجھے جانے والے محقق اور مورخ سعید اسعد کا تعلق میرپور سے ہے۔ وہ دو درجن سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں جن میں سے بعض کتابیں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں سرکاری ملازمتوں کے لیے مقابلے کے امتحان میں شریک ہونے والے امیدوار تیاری کے لیے استعمال کرتے ہیں، تاہم ان کی زیادہ تر کتابوں پر پابندی عائد ہے۔
سعید اسعد 1996 میں امتحان پاس کر کے محکمہ سماجی بہبود میں سوشل ویلفیئر آفیسر تعینات ہوئے اور 24 سال سے اسی سکیل میں ملازمت کر رہے ہیں۔ اسی دوران انہیں ان کے مرتب کردہ ’ریاست جموں وکشمیر‘ کے ایک نقشے کی بنا پر انہیں ملازمت سے برخاست کر دیا گیا تاہم ہائی کورٹ نے انہیں ملازمت پر بحال کر دیا۔
اس نقشے کے بارے میں سعید اسعد نے بتایا کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں حکام کو اعتراض یہ ہے کہ گلگت بلتستان اور چین کے اکسائی چین کے علاقے کو ریاست جموں وکشمیر کا حصہ کیوں دکھایا گیا۔
سعید اسعد کا کہنا ہے: ’ایک جانب میرے تیار کردہ نقشے پر پابندی ہے اور مجھے اس بنا پر ملازمت سے نکالا گیا اور دوسری طرف وہی نقشہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے زیاد تر سرکاری دفاتر میں آویزاں بھی ہے۔‘
سعید اسعد کے بقول وہ گذشتہ دو سال سے ملازمت سے معطل ہیں۔ حکام نے ان کے خلاف نہ تو کوئی چارج شیٹ پیش کی اور نہ ہی کسی کارروائی کا آغاز ہوا۔
’جب بھی دفتر جاتا ہوں سینیئر افسران کہتے ہیں یہاں آپ کے بیٹھنے کی جگہ نہیں۔ آپ گھر جائیں۔ تنخواہ آپ کو مل جائے گی۔‘
وہ کہتے ہیں، ’1996 میں جن لوگوں نے میرے ساتھ مقابلے کا امتحان پاس کیا ان میں سے زیادہ تر محکموں کے سیکریٹری بن گئے مگر میں 24 سال بعد بھی سترویں گریڈ کا ملازم ہوں۔
’کشمیر کی تاریخ پر لکھنا چھوڑ دو تو ترقی ملے گی۔ میں کہتا ہوں نوکری کیا، جان بھی چلی جائے تاریخی حقائق لکھنا نہیں چھوڑ سکتا۔‘