پچھلے دنوں وزیراعظم شہباز شریف کی ایک آڈیو لیک سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کے داماد کے بجلی گھر کی بقیہ مشینری انڈیا سے درآمد کی اجازت کا معاملہ وزیر اعظم کے سامنے آیا۔
آڈیو میں وزیراعظم کو بتایا جا رہا ہے کہ مریم نواز نے وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری سے انڈیا سے بجلی گھر منگوانے کے حوالے سے بات کی ہے جس پر وزیر اعظم کہتے ہیں کہ وہ انہیں سمجھا دیں گے۔
وزیر اعظم نے امریکہ سے واپسی پر ایک پریس کانفرنس میں اس آڈیو کے حقیقی ہونے کی تصدیق کی ہے۔
آڈیو کے حوالے سے آج مریم نواز سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر بھی سوال کیا گیا۔ مریم نواز کا کہنا تھا کہ ’میرے داماد کا آدھا پلانٹ عمران خان کے دور میں آیا اور آدھا منگوانے کے لیے سابق حکومت کو درخواست دی تو انہوں نے پلانٹ لانے کی اجازت نہیں دی، پھر موجودہ حکومت میں وزیر اعظم شہباز شریف کے سامنے معاملہ آیا تو انہوں نے کہا انڈیا سے تجارت پر پابندی کے باعث نہیں آسکتا۔
’وزیر اعظم نے مجھے اور راحیل کو بتا دیا۔ ہمیں خوشی ہوئی کہ انہوں نے بھی قانون کی پاسداری کی۔‘
تاہم یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ انڈیا سے بجلی گھر کی مشینری کیوں منگوائی جا رہی ہے؟
پاکستان میں نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے شوگر ملز پر بجلی پیدا کرنے کے پلانٹ لگانے کی شرط عائد کر رکھی ہے جس کے بعد مختلف شوگر ملز نے بجلی پیدا کرنے کے پلانٹ لگائے۔
بجلی کے یہ پلانٹ شوگر ملز مالکان دوسرے ممالک سے درآمد کرتے ہیں جس کے لیے حکومت سے باقاعدہ اجازت حاصل کی جاتی ہے۔
مریم نواز کے داماد راحیل منیر کے بجلی گھر سے متعلق 2020 میں عدالت میں جمع کرائی گئی تفصیل میں بتایا گیا ہے کہ اتحاد شوگر ملز اور اتحاد ہاؤسنگ سکیم کے لیے زیرتعمیر پاور پلانٹ کا 60 فیصد کام 2020 سے پہلے مکمل ہو چکا تھا جس کے بعد حکومت نے 2020 میں انڈیا سے ہر طرح کی درآمد پر مکمل پابندی لگا دی۔
انڈیا میں چین کے تعاون سے تیار پاور پلانٹس براستہ دبئی یا چین منگوائے جا سکتے ہیں۔ ایک نجی کمپنی ڈیسکون نے راحیل منیر کے پاور پلانٹ کا کچھ حصہ براستہ چین پابندی سے قبل درآمد کر لیا تھا۔
چیئرمین شوگر ملز ایسوسی ایشن ذکا اشرف کے مطابق امریکہ اور جرمنی سے منگوائے گئے بجلی گھر بہت مہنگے پڑتے ہیں اس لیے جو درآمد ہوئے وہ چین اور بھارت میں تیار ہونے والے خریدے گئے کیونکہ ان کی قیمت امریکن اور یورپی پلانٹس کے مقابلے میں 50 فیصد کم ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن کے سابقہ دور حکومت کے آخر میں شوگر ملز کے پاور پلانٹس سے بجلی کی خریداری بند کر دی گئی تھی جبکہ دو ملز اتحاد اور چنار شوگر ملز سے خریداری جاری تھی۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی تمام ملز سے بجلی کی خریداری بند کر دی تھی۔
ذکا اشرف نے کہا کہ پہلے حکومت نے خود پاور پلانٹ لگانے کی پالیسی بنائی اور جب ملز مالکان نے اربوں روپے لگا کر بجلی گھر منگوائے تو معاہدے کی پاس داری ختم کر دی گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہنزہ شوگر ملز کے مالک چوہدری عبدالوحید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حکومتی پالیسی کے مطابق ان سمیت چار شوگر ملز نے انڈیا میں چین کے تعاون سے بننے والے پلانٹ خرید کر براستہ دبئی اور چین منگوائے۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت سے براہ راست درآمد پر پابندی کے باعث دو گنا خرچ کر کے پلانٹ پہنچے مگر ابھی تک حکومت نے یہ پلانٹ لگانےکی اجازت نہیں دی۔
ذکا اشرف کے بقول ملک کی تمام شوگر ملز نے بجلی پیدا کرنے کے پلانٹ لگا رکھے ہیں جو نئی پالیسی کے مطابق67 کی بجائے 105 ہائی پاور قابلیت پر اپ گریڈ بھی کیے جا چکے ہیں۔
شوگر ملز میں لگنے والے پاور پلانٹس میں بجلی مقامی سکریپ یعنی گنے کی پھوک استعمال کر کے پیدا کی جاتی ہے جس سے پیداواری لاگت کم ہوتی ہے۔
معاہدے کے مطابق حکومت 12 روپے فی یونٹ کے حساب سے شوگر ملز سے بجلی خریدتی تھی مگر پی ٹی آئی حکومت نے یہ خریداری مکمل بند کر دی اگرچہ اس سے پہلے ن لیگ کی حکومت کے آخر وقت میں بھی صرف دو ملوں سے خریدی جا رہی تھی۔
ذکا اشرف نے کہا کہ حکومت ان پلانٹس سے استفادہ حاصل کرنے میں سنجیدہ نہیں۔
’حالانکہ ہم نے حکومت کے سامنے تجویز رکھی تھی کہ اگر وہ واپڈا کے نظام میں بجلی شامل نہیں کرنا چاہتے تو کاشت کاروں کو یہ بجلی سستی فراہم کی جائے۔ ہم اس کے لیے تیار ہیں مگر کوئی جواب نہیں ملا۔‘
چوہدری عبدالوحید نے کہا کہ پہلے بھی حکومت جب شوگر ملز سے بجلی خریدتی تھی تو صرف سردیوں میں خریدتی تھی جبکہ گرمیوں میں آئی پی پیز کے دباؤ پر بجلی کی خریداری ڈیمانڈ کے باوجود بند کر دی جاتی تھی۔
ذکا اشرف کہتے ہیں کہ اگر حکومت سنجیدگی سے حکمت عملی بنائے تو تمام شوگر ملز کے پلانٹس تین سے چار ہزار میگا واٹ تک سستی بجلی حکومت کو فراہم کر سکتے ہیں اور شارٹ فال پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
چوہدری عبدالوحید کے مطابق انہیں سمجھ نہیں آرہا کہ حکومت جب بجلی نہیں خرید رہی تو راحیل منیر پلانٹ کیوں درآمد کرنا چاہتے ہیں؟
انڈپینڈنٹ اردو نے راحیل منیر اور ان کی کمپنی سے رابطے کی کوشش کی لیکن ان سے بات نہ ہو سکی۔ اگر انہوں نے کوئی ردعمل دیا تو اسے خبر کا حصہ بنا دیا جائے گا۔