انگلینڈ کے کپتان جوس بٹلر کا ماننا ہے کہ پاکستان میں کرکٹ سیریز کا مشاہدہ کرنا ایک ایسا تجربہ ہے، جو ان کی کپتانی کو بہتر بنانے میں مدد دے سکتا ہے۔
دی ہنڈرڈ کے دوران پنڈلی میں تکلیف وجہ سے جوس بٹلر انگلینڈ کے 17 سال میں پاکستان کے پہلے دورے سے باہر ہوئے تھے، جو ایون مورگن کے بعد بٹلر کے ٹیم کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد پہلا غیرملکی دورہ تھا۔
لیکن انہوں نے پاکستان جانے پر اصرار کیا تاکہ وہ جزوی طور پر اگلے ماہ ہونے والے ورلڈ کپ سے پہلے بحالی کا کام جاری رکھ سکیں اور قیادت کی ذمہ داری سیکھ سکیں۔
انہوں نے میدان میں فیصلہ سازی کے معاملے سے اپنے آپ کو دور رکھا ہے اور نائب معین علی کو یہ ذمہ داری سونپ دی ہے تاہم وہ پورے دورے میں اپنے سکواڈ کے بارے میں مشاہدہ کرتے رہے ہیں۔
جمعے کو سات میچوں کی سیریز کے چھٹے ٹی ٹوئنٹی میچ سے پہلے بات کرتے ہوئے، جسے جیت کر انگلینڈ اتوار کے میچ کو فیصلہ کن بنا سکتا ہے، انہوں نے سکائی سپورٹس کو بتایا: ’یہاں کھیلنے کے لیے نہیں بلکہ مشاہدہ کرنے کے قابل ہونا ایک منفرد صورت حال ہے۔‘
’میں صرف ٹیم کو سن کر اور لڑکوں کے بارے میں جاننے کی کوشش کو دیکھ کر بہت کچھ سیکھ رہا ہوں، یقینی طور پر میں کھیل کو بغیر کسی جذبات کے دیکھ رہا ہوں، یہ سوچ رہا ہوں کہ آپ خاص مواقعوں پر کیا کریں گے۔
’ہم یہاں پاکستان میں ایک ساتھ کافی وقت گزار رہے ہیں، ہم سب کے لیے ایک ساتھ رہنا بہت اچھا ہے۔ معین لاجواب رہا ہے۔ میں نے اس سے قیادت کرنے اور اسے اس طرح سنبھالنے کو کہا ہے جیسے وہ کپتان ہے اور وہ گروپ میں بہت اچھا رہا ہے، جیسا کہ وہ ہمیشہ سے ہے اور میدان میں واقعی متاثر کن ہے۔‘
سفر کے آغاز میں توقع یہ تھی کہ جوس بٹلر جمعے یا اتوار کو سیریز کے فائنل پر واپسی کی کوشش کریں گے، لیکن اب اس کا امکان نظر نہیں آتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بٹلر نے کہا کہ وہ اچانک میدان میں اترنے کی پوزیشن میں ہیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ سکواڈ کے فٹنس مسائل کی تعداد کے پیش نظر انہیں محتاط رہنے کی ہدایت ہے۔
انہوں نے کہا: ’مجھے ایسا لگتا ہے کہ اگر کل ورلڈ کپ کا میچ ہوتا تو میں کھیل سکوں گا۔
’لیکن میں تھوڑا سا محتاط ہوں اور صورت حال کو آہستہ سے لے رہا ہوں۔ اگر مجھے کرنا پڑا تو میں کر سکتا ہوں۔‘
دوسری جانب نائب کپتان معین خان نے کہا: ’ذاتی طور پر مجھے نہیں لگتا کہ ہم اتنے بڑے کھلاڑی کے حوالے سے ورلڈ کپ کے قریب یہ خطرہ مول لیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ صبح اٹھیں اور سوچیں کہ میں اچھا محسوس کر رہا ہوں، میں کھیلنا پسند کرتا ہوں لیکن میں اس جیسے کھلاڑی کے حوالے سے کوئی خطرہ مول نہیں لوں گا۔‘
آل راؤنڈر معین خان، جن کے ناقابل شکست 51 رنز بدھ کو شکست کو ٹالنے کے لیے کافی نہیں تھے، جانتے ہیں کہ اگلے دو میچوں میں سے ہر ایک میں سیریز برابر ہوسکتی ہے اور صرف بیک ٹو بیک جیت ہی فتح کے لیے کافی ہوگی۔
پہلا ٹی ٹوئنٹی: انگلینڈ 6 وکٹوں سے جیت گیا۔
دوسرا ٹی ٹوئنٹی: پاکستان 10 وکٹوں سے جیت گیا۔
تیسرا ٹی ٹوئنٹی: انگلینڈ 63 رنز سے جیت گیا۔
چوتھا ٹی ٹوئنٹی: پاکستان 3 رنز سے جیت گیا۔
پانچواں ٹی ٹوئنٹی: پاکستان 5 رنز سے جیت گیا۔
چھٹا ٹی ٹوئنٹی: لاہور، 30 ستمبر
ساتواں ٹی ٹوئنٹی: لاہور، 2 اکتوبر
لیکن ٹورنامنٹ کے قریب ہونے کی وجہ سے وہ اس قسم کی صورت حال کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ورلڈ کپ میں جانا اور ہر حال میں کھیل جیتنا اچھا ہے۔‘
’ہماری ٹیم کے لیے اب یہ سیمی فائنل اور فائنل ہے۔ ہمیں اس میں رہنے کے لیے جیتنا ہو گا۔ یہ دیکھنا بہت اچھا ہو گا کہ لڑکے کتنے پانی میں ہیں۔ بین الاقوامی کرکٹ میں ہر وقت دباؤ رہتا ہے اس لیے یہ دیکھنا بہت اچھا ہے کہ ہم کس طرح کا ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔‘
انگلینڈ پہلے ہی اپنے 20 رکنی سکواڈ میں سے 18 کھلاڑیوں کو استعمال کرچکا ہے۔ اس نے اپنی ٹیم میں باقاعدگی سے تبدیلیاں کی ہیں اور اب اسے فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا اس عمل کو جاری رکھنا ہے یا سب سے مضبوط دستیاب ٹیم کا انتخاب کرنا ہے۔
نئی جوڑی ٹام ہیلم اور جارڈن کاکس کو اپنے موقع کا انتظار کرنا پڑ سکتا ہے، اگر کسی بڑی تبدیلی کا فیصلہ نہیں کیا جاتا ہے۔