روسی ریفرنڈم میں حصہ نہ لینے والے یوکرینیوں کے ساتھ کیا ہوا؟

یوکرین کے مقبوضہ علاقوں کے رہائشیوں نے بتایا کہ کس طرح روسی فوج اور ان کے مقامی حامیوں نے انہیں ووٹ ڈالنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی۔

26 ستمبر، 2022 کو برڈیانسک کے ایک ہسپتال میں ریفرنڈم کے لیے ووٹنگ کروائی جا رہی ہے (اے ایف پی)

دہشت زدہ یوکرینی شہریوں نے بتایا ہے کہ روسی ’دکھاوے‘ کے ریفرنڈم میں حصہ نہ لینے پر انہیں بندوق کی نوک پر گھروں سے اغوا کر لیا گیا، قید تنہائی میں رکھا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

عینی شاہدین کے مطابق بعض یوکرینی شہریوں کو رائے شماری کی حمایت پر مبنی کتابچے لے جانے والے رضاکاروں کے ذریعے گھسیٹ کر پولنگ سٹیشنوں پر لے جایا گیا۔

عینی شاہدین نے ان ’مخبروں‘ کے بارے میں بھی بات کی جنہوں نے ان لوگوں کی اطلاع قابض فوجوں کو دی جن پر مقبوضہ علاقوں کے روس کے ساتھ الحاق کی مخالفت کا شک کیا گیا۔

روسی صدر ولادی میر پوتن نے قبضے کے بعد جنوبی اور مشرقی یوکرین کے چار علاقوں کو روس میں ضم کرنے کا اعلان کیا۔

زمین پر اس قبضے کے بارے میں مغرب کا کہنا ہے کہ وہ تسلیم کرنے سے انکار کر دے گا۔

 ڈونیتسک، لوہانسک، زاپورژیا اور خیرسن کے مقبوضہ علاقوں کے رہائشیوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ کس طرح علیحدگی پسند  فوج اور مقامی حامیوں نے لوگوں کو ووٹ ڈالنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی۔

فرار ہونے والوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ بہت سے مرد تیزی سے یوکرین کے زیر قبضہ علاقوں کی طرف جا رہے ہیں کیوں کہ انہیں خوف ہے کہ ماسکو کی جانب سے الحاق کو باقاعدہ بنانے کے بعد مقبوضہ علاقوں سے لوگوں کی فوج میں جبری بھرتی اگلے ہفتے شروع ہو جائے گی۔

زاپورژیا کے علاقے میں مقبوضہ قصبے ملیتوپول کی رہائشی 70 سالہ خاتون اولینا کہتی ہیں کہ ’مسلح افراد میرے گھر آئے اور مجھے گرفتار کرنے کے بعد حراستی مرکز میں لے جا کر تین دن تک میں قید تنہائی میں رکھا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ کتابچے لے کر جو خواتین ان کے دروازے پر آئیں انہوں نے انہیں گھسیٹ کر پولنگ سٹیشن لے جانے کی کوشش کی اور جب انہوں نے ووٹ ڈالنے کے لیے ان کے ساتھ جانے سے انکار کیا تو انہوں نے ان کے بارے میں پولیس کو اطلاع کر دی۔

خاتون نے بات جاری رکھے ہوئے کہا کہ ’(فوجیوں) نے میرے سر پر ایک بیگ رکھ کر اسے ٹیپ لگا دی۔‘

خاتون نے وضاحت کی اس کے بعد انہیں روسی ٹیلی ویژن کے عملے کے سامنے بٹھایا گیا جہاں ان کے خلاف مبینہ الزامات پڑھ کر سنائے گئے۔

’جو وجوہات بیان کی گئیں ان کے مطابق ریفرنڈم میں رکاوٹ ڈالنا ہے اور اس کے بعد الزامات کی اتنی طویل فہرست کہ جیسے میں کوئی دہشت گرد ہوں۔‘

بالآخر مذکورہ خاتون کو مقبوضہ علاقے سے باہر نکال دیا گیا اور انہیں 20 کلو میٹر تک پیدل چلنا پڑا اور تین دن کھانے کو کچھ نہیں ملا۔

خاتون نے مزید کہا: ’میرا خیال ہے کہ (خواتین) نے میری مخبری کی کیوں کہ زاپورژیا کے گورنر نے اعلان کیا تھا کہ پکڑنے جانے والے ہر ’جاسوس یا دہشت گرد‘ پر پانچ لاکھ روبل (7900 پاؤنڈ) انعام دیا جائے گا۔

’خوف کی فضا پائی جاتی ہے۔ لوگوں کو یقین نہیں کہ وہ کس پر اعتبار کریں۔‘

قریبی علاقے خیرسن کی رہائشی 39 سالہ میکسم کو بھی ووٹ ڈالنے سے گریز کرنے پر حراست میں لیا گیا۔

ان کا کہنا ہے اس وقت مخبری کا کام زوروں پر ہے جس کی وجہ سے مقامی لوگ خوف میں مبتلا ہیں۔

انہوں نے فرار ہونے کے بعد اندرون ملک نقل مکانی کرنے والے لوگوں کے بنائے گئے استقبالیہ مرکز سے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’لوگ ہر بات سے ڈرتے ہیں اور اب صرف اپنے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ بات کرتے ہیں۔

’نوجوانوں کے لیے قائم مرکز، جہاں میں کام کرتا ہوں، کی انتظامیہ نے قابض حکام کے ساتھ سازباز کر رکھی ہے اور مجھے کمر پر باندھنے والے بیگ مبینہ طور پر چوری کرنے پر گرفتار کروا دیا۔‘

’مجھے حراست میں لے کر پیٹا گیا۔ ہر طرح کے ’جرائم‘ کا الزام لگایا گیا اور اعترافی بیان پر دستخط پر مجبور کیا گیا۔ میں نے وہاں تین دن گزارے۔‘

جمعے کو ماسکو کے ریڈ سکوائر پر بہت بڑا جشن منایا گیا جہاں روس نے اعلان کیا کہ وہ ان علاقوں کو اپنی فیڈریشن میں شامل کر رہا ہے، اس کے باوجود کہ اس کا ان علاقوں پر مکمل کنٹرول نہیں اور حالیہ ہفتوں میں بڑے فوجی نقصانات اٹھاتا رہا ہے۔

روس کا دعویٰ ہے کہ بعض علاقوں میں الحاق کی حمایت 99 فیصد تک پہنچ گئی۔

 الحاق کا اعلان کرنے کے بعد صدر پوتن نے تمام ’دستیاب وسائل ‘ سے کام لیتے ہوئے نئے الحاق شدہ علاقوں کی حفاظت کا عزم کیا۔

اس اعلان سے روس یوکرین اور مغرب کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہونا تقریباً یقینی ہے جو سات ماہ سے جاری جنگ میں نیا تنازع ثابت ہو گا۔

مغربی حکام نے مقبوضہ علاقوں کے الحاق کے لیے ووٹ دینے کو غیر قانونی اور دھاندلی قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے اور یوکرین نے اسے ’کریملن کا نیا ڈراؤنا تماشہ‘ قرار دیا۔

یوکرین کے صدر وولودی میر زیلنسکی نے جمعے کو اپنی قومی سلامتی اور دفاعی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلایا ہے جس میں ’بنیادی فیصلے‘ کیے جائیں گے۔

روس نے ڈھکی چھپی دھمکیاں بھی دی ہیں کہ اگر ملحقہ علاقوں پر حملہ کیا گیا تو لڑائی جوہری شکل اختیار کر سکتی ہے۔

 میکسم کا کہنا تھا کہ علاقوں میں بہت سے مرد فوج میں جبری طور پر بھرتی کیے جانے سے پہلے فرار ہو رہے ہیں۔ ان کی اہلیہ وکٹوریہ کا کہنا ہے شوہر کی رہائی کے بعد وہ لوگ اس ڈر سے بھاگ گئے کہ ان شوہر اور ان کے بیٹے جو 18 سال کے ہیں، دونوں کو جلد ہی بھرتی کر لیا جائے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میکسم نے مزید کہا کہ ’لوگ بڑی تعداد میں مقبوضہ علاقوں کو چھوڑ رہے ہیں۔ ابھی تک کوئی جبری بھرتی نہیں کی گئی لیکن یہ شروع ہو جائے گی۔ ہم نے نام نہاد ’ریفرنڈم‘ میں بھی حصہ نہیں لیا۔‘

’لوگوں کو سوشل میڈیا پر لائیکس اور پوسٹ کرنے پر تنگ کیا جا رہا ہے۔‘

زاپورژیا کے علاقے توکماک سے تعلق رکھنے والے 53 سالہ ایگور، جن کی اہلیہ یوکرینی زبان پڑھاتی ہیں اور جو یوکرین کے زیر قبضہ علاقے کی طرف فرار بھی ہو گئی تھیں، کا کہنا ہے کہ ریفرنڈم کے پہلے چند دنوں میں ان کے اہل خانہ اس قدر خوفزدہ تھے کہ وہ اپنے گھر میں چھپ گئے یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ جیسے کوئی ’گھر میں موجود نہ ہو۔‘

انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’لیکن جب ہم نے فوجیوں سے بھری گاڑیاں آتے ہوئے دیکھیں تو ہم نے وہاں سے جانے کا فیصلہ کیا۔‘ اس دوران ان کی اہلیہ سسکیاں لیتی رہیں۔

امریکہ اور یورپی یونین مقبوضہ علاقوں کو ضم کرنے پر روس اضافی پابندیاں عائد کرنے کے لیے تیار ہیں۔ روس کے کچھ قریبی روایتی اتحادیوں، جیسے سربیا اور قزاقستان کا بھی کہنا ہے کہ وہ روس کے اس اقدام کو تسلیم نہیں کریں گے۔

روسی حکومت کے حکام کہہ چکے ہیں کہ ایک بار روس میں باضابطہ طور پر شامل ہونے کے بعد  چاروں علاقے ماسکو کی جوہری چھتری کے نیچے آجائیں گے۔ یہ بیان صدر پوتن کے اس بیان کے بعد سامنے آیا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ روسی سرزمین کے دفاع کے لیے جوہری ہتھیار استعمال کر سکتے ہیں۔


 اس سٹوری میں الزبتھ پشکووا کی اضافی رپورٹنگ شامل ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا