پاکستان فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ مسلح افواج نے خود کو سیاست سے دور کر لیا ہے اور ادارہ مستقبل میں بھی اس سے دور رہنا چاہتا ہے۔
سرکاری میڈیا کے مطابق آرمی چیف کا یہ بیان واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے میں ظہرانے کے دوران سامنے آیا۔ غیر رسمی بات چیت میں جنرل باجوہ نے آئندہ ماہ اپنی مدت ملازمت مکمل ہونے کے بعد آرمی چیف کا عہدہ چھوڑنے کے عزم کا بھی اعادہ کیا ہے۔
آرمی چیف کا یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب جنرل قمر جاوید باجوہ کو نومبر 2019 میں تین سال مدت پوری ہونے پر عہدے میں تین سال کی جو توسیع ملی تھی وہ رواں برس 29 نومبر 2022 کو ختم ہو جائے گی۔
اس کے بعد پاکستان بری فوج کے نئے سپہ سالار کمان سنبھالیں گے۔
پاکستان کے سب سے طاقتور اور بااثر سکیورٹی ادارے میں آنے والے دنوں میں کئی اہم کمانڈر اپنی مدت مکمل کر رہے ہیں جس سے فوج کے اندر بڑی تبدیلیوں کا امکان ہے۔
ریڈیو پاکستان کے مطابق آرمی چیف نے کہا: ’مضبوط معیشت کے بغیر کوئی سفارت کاری نہیں ہو سکتی اور نہ ہی مضبوط معیشت کے بغیر قوم اپنے اہداف حاصل کر سکتی ہیں۔‘
جنرل باجوہ نے کہا کہ ملک کی بیمار معیشت کی بحالی معاشرے کے ہر سٹیک ہولڈر کی ترجیح ہونی چاہیے۔ اس سے قبل جنرل باجوہ نے امریکی حکام سے علاقائی سلامتی پر تبادلہ خیال کیا۔
آرمی چیف اس وقت امریکہ کے دورے پر ہیں جہاں انہوں نے امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن، قومی سلامتی کے مشیر جیکب سلیوان اور نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین سے ملاقاتیں کیں۔
آئی ایس پی آر کے مطابق ان ملاقاتوں میں باہمی دلچسپی کے امور، علاقائی سلامتی کی صورت حال اور مختلف شعبوں میں دوطرفہ تعاون پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’دونوں فریق افغانستان سمیت اہم بین الاقوامی مسائل پر متفق تھے اور انسانی بحران سے بچنے اور خطے میں امن و استحکام کو بہتر بنانے کے لیے تعاون کے خواہاں ہیں۔‘
امریکی محکمہ دفاع کے ایک بیان میں صرف اتنا کہا کہ آسٹن کی پاکستان آرمی چیف سے ملاقات ’امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر‘ ہوئی تھی۔
انڈپینڈنٹ اردو کی معلومات کے مطابق ستمبر 2018 میں میجر جنرل سے لیفٹیننٹ جنرل ترقی پانے والے چھ لیفٹیننٹ جنرل اکتوبر اور نومبر میں ریٹائر ہو رہے ہیں۔ ان میں سے تین لیفٹیننٹ جنرل رواں ماہ ہی ریٹائر ہو جائیں گے۔
ان میں لیفٹیننٹ جنرل عبدالعزیز کور کمانڈر لاہور 20 اکتوبر، لیفٹیننٹ جنرل ندیم ذکی منج ڈی جی ایس پی ڈی 19 اکتوبر، لیفٹیننٹ جنرل محمد عدنان ڈی جی ٹریننگ ایوالوایشن 12 اکتوبر کو جبکہ لیفٹیننٹ جنرل شاہین مظہر کور کمانڈر منگلا پانچ نومبر اور لیفٹیننٹ جنرل وسیم اشرف 19 نومبر کو ریٹائر ہوں گے۔
اس کے علاوہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر احمد جو پہلے کور کمانڈر گوجرانوالہ اور حال ہی میں کوارٹر ماسٹر جنرل کے عہدے پر تعینات ہوئے ہیں ان کی عہدے سے ریٹائرمنٹ 30 ستمبر تھی لیکن کچھ تکنیکی تبدیلی اور تاخیر سے ان کو تھری سٹار کے رینکس 27 نومبر 2018 میں لگائے گئے جس کی وجہ سے اب ان کے عہدے کی مدت 27 نومبر 2022 میں مکمل ہو گی۔
موجودہ فہرست کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کی ریٹائرمنٹ چونکہ آرمی چیف کے عہدے کی مدت کے قریب ہے تو ان کا نام فہرست میں زیر غور ہو سکتا ہے۔ جبکہ اس کے علاوہ ٹاپ فور لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد کور کمانڈر راولپنڈی، لیفٹینیٹ جنرل اظہر عباس جو چیف آف جنرل سٹاف، لیفٹیننٹ جنرل نعمان نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے صدر، جبکہ کور کمانڈر بہاولپور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید شامل ہیں۔
یہ وزیراعظم کی صوابدید ہے کہ پہلے پانچ ناموں میں سے آرمی چیف منتخب کریں یا مزید ناموں کے فہرست منگوائیں۔ چھٹے نمبر پر لیفٹیننٹ جنرل محمد عامر کور کمانڈر گوجونوالہ، ساتویں نمبر پر لیفٹیننٹ جنرل محمد چراغ حیدر کور کمانڈر ملتان جبکہ سنیارٹی فہرست میں آٹھویں نمبر پر موجودہ ڈی جی آئی ایس ندیم احمد انجم شامل ہیں۔
عسکری ذرائع کے مطابق رواں برس نومبر کے پہلے ہفتے میں موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے بذریعہ وزارت دفاع نام بھجوائے جائیں گے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ابھی امریکہ کے چھ روزہ دورے پر ہیں۔ آرمی چیف کی واپسی کے بعد کچھ میجر جنرلز کی لیفٹیننٹ جنرلز کے عہدے پر ترقیاں اور ریٹائر ہونے والے لیفٹیننٹ جنرل کی جگہ نئی تعیناتیاں بھی متوقع ہیں۔
ماضی میں آرمی چیف کی تعیناتی میں سنیارٹی کو کتنا ملخوظ خاطر رکھا گیا؟
تاریخ کے مطابق قیام پاکستان کے بعد پہلے دو برٹش آرمی سربراہان کے بعد 1951 میں پاکستان آرمی کے سربراہ جنرل ایوب تعینات ہوئے، جنرل ایوب سنیارٹی فہرست میں تیسرے نمبر پر تھے۔ جنرل محمد موسی 1958 میں دوسرے سربراہ بنے جو سنیارٹی فہرست میں چوتھے نمبر پر تھے۔ 1966 جنرل یحیی آرمی چیف بنے جو سنیارٹی میں تیسرے نمبر پر تھے۔
مشرقی پاکستان علیحدگی کے بعد 1971 بیس دسمبر کو جنرل گُل حسن کو آرمی چیف تعینات کیا گیا جو سنیارٹی میں دوسرے نمبر پہ تھے اور انہوں نے جنرل ٹکا خان کو سپرسیڈ کیا تھا لیکن تین ماہ بعد ہی 1972 میں جنرل ٹکا خان پاکستان فوج کے سربراہ تعینات ہوئے جو سنیارٹی میں پہلے نمبر پر تھے۔
1976 میں جنرل ضیاالحق کو وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے آرمی چیف تعینات کیا اور جنرل ضیا سنیارٹی فہرست میں آٹھویں نمبر پر تھے۔ جنرل ضیا کے بعد 1988 میں جنرل مرزا اسلم بیگ آرمی چیف بنے اور وہ سنیارٹی فہرست میں پہلے نمبر پہ تھے۔ 1991 میں جنرل آصف نواز کو آرمی چیف تعینات کیا گیا جو سنیارٹی فہرست میں دوسرے نمبر پہ تھے۔
1993 میں جنرل آصف نواز کی وفات کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے سنیارٹی فہرست میں پانچویں نمبر پر جنرل وحید کاکڑ کو آرمی چیف تعینات کیا جبکہ 1996 میں جنرل جہانگیر کرامت آرمی چیف تعینات کیے گئے جو سنیارٹی فہرست میں پہلے نمبر پہ تھے۔ 1998 میں جنرل جہانگیر کرامت کے استعفے کے بعد جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف تعینات کیا گیا جو سنیارٹی فہرست میں تیسرے نمبر پر تھے۔
جنرل مشرف کے بعد جنرل اشفاق پرویز کیانی نے 2007 میں پاکستان آرمی کی کمان سنبھالی اور وہ سنیارٹی فہرست میں پہلے نمبر پہ تھے۔ جنرل راحیل شریف سنیارٹی میں تیسرے نمبر جبکہ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سنیارٹی فہرست میں چوتھے نمبر پہ ہیں۔
نئے آنے والے آرمی چیف کے لیے نام بھجوانے کا طریقہ کار کیا ہوتا ہے؟
میجر جنرل ریٹائرڈ راشد قریشی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ طریقہ کار یہی ہے کہ موجودہ آرمی چیف سنیارٹی فہرست میں سے پہلے تین یا پہلے پانچ نام ان کی اہلیت کی جانچ کرنے کے بعد وزارت دفاع کے ذریعے وزیراعظم کو بھجواتے ہیں ہر نام کے ساتھ ان کی اہلیت لکھی ہوتی ہے۔ جس کے بعد وزیراعظم پاکستان ان تین یا پانچ ناموں سے ایک نام چئیرمین جوائنٹ چیف جبکہ ایک نام آرمی چیف کے عہدے کے لیے منتخب کر لیتے ہیں۔'
اور اگر سبکدوش ہونے والے آرمی چیف کسی کی سفارش کرنا چاہیں تو اس کا اضافی نوٹ ہو سکتا ہے۔ لیکن حتمی اختیار اور منظوری وزیراعظم کی ہو گی۔
عمومی طور پر نومبر کے پہلے ہفتے میں نام وزیراعظم آفس بھیجیں جاتے ہیں جس کے بعد متوقع طور پر پچیس چھبیس نومبر تک اعلامیہ جاری ہوتا ہے۔
سنیارٹی فہرست میں کون سے نام ہیں؟
یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب آرمی چیف کے لیے نام بھجوائے جائیں گے تو کیا اس وقت کور کمان کرنے کی بارہ ماہ کی مدت پوری ہونا ضروری ہے۔ ذرائع نے تصدیق کی کہ پہلے صرف یہ ضروری تھا کہ آرمی چیف آرمی بننے کے لیے کور کمان کرنا لازم ہے لیکن حال ہی میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے رولز میں ترامیم کرتے ہوئے واضح کر دیا ہے کہ آرمی چیف کی اہلیت کے لیے کم از کم ایک سال کی کور کمان کرنا لازم ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
معلومات کے مطابق موجودہ فہرست کے پہلے پانچوں افسران کور کمان کی اہلیت پر پورے اترتے ہیں۔
سینیئر صحافی شوکت پراچہ نے اس معاملے پر انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ فہرست تو سنیارٹی لسٹ میں پہلے تین، چار یا پانچ ناموں کی ہی جاتی ہے لیکن اس میں سے چناؤ کرنا وزیراعظم کی صوابدید ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پروسیجر اور طریقہ کار یہی ہے کہ موسٹ سینیئر افسران کے نام ہی زیر غور ہوتے ہیں۔
لیکن اگر وزیراعظم فہرست میں چار پانچ ناموں سے مطمئن نہیں ہوتے تو یہ اُن کی صوابدید ہے کہ وہ مزید نام منگوائیں۔ لیکن یہ صوابدیدی اختیار ہے اس کو پروسیجر نہیں کہا جا سکتا۔ پروسیجر اور طریقہ کار یہی ہے کہ سب سے سینیئر افسران کے نام ہی زیر غور آتے ہیں۔
نئے آرمی چیف کے نام کا اعلان کب کب ہوا؟
آرمی چیف کے نام کا اعلان عمومی طور پر کمان تبدیلی سے کچھ روز قبل کیا جاتا ہے۔ جنرل قمر جاوید کے نام کا اعلان چھبیس نومبر 2016 کو کیا گیا تھا جبکہ نام نومبر کے پہلے ہفتے اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو بھجوائے گئے تھے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ سنیارٹی فہرست میں چوتھے نمبر پر تھے جبکہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے آرمی چیف کے عہدے سے سبکدوشی کے وقت جنرل راحیل شریف کے نام کا اعلان ستائیس نومبر 2013 کو کیا گیا تھا۔
جنرل پرویز مشرف جب فوج کی کمان سے سبکدوش ہوئے تو سب سے سینیئر جنرل اشفاق پرویز کیانی کو آرمی چیف تعینات کیا۔ سینیئر صحافی خالد محمود کے مطابق جنرل اشفاق پرویز کیانی کو جنرل پرویز مشرف نے اکتوبر میں وائس چیف آف آرمی سٹاف تعینات کر دیا تھا اور یہ طے شدہ تھا کہ جب جنرل مشرف آرمی چیف کا عہدہ چھوڑیں گے جنرل اشفاق آرمی چیف بن جائیں گے اس لیے اس تعیناتی کا دو مہینے قبل ہی علم تھا۔
سابق ادوار میں جنرل ضیا اور جنرل مشرف کے بعد جنرل اشفاق پرویز کیانی اور جنرل قمر جاوید باجوہ نے چھ، چھ سال بری فوج کی کمان کی جبکہ جنرل راحیل شریف نے عہدے میں توسیع نہیں لی اور تین سال مدت پوری کر کے سبکدوش ہو گئے تھے۔