یوکرین کے دارالحکومت کیئف سمیت کئی شہروں کو تازہ روسی حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ حملے کرائمیا کے اس پل پر ہونے والے دھماکے کے ایک روز بعد کیے گئے ہیں جو روس کو جزیرہ نما کرائمیا سے جوڑتا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق بظاہر یہ حملے روس کی جانب سے کی گئی انتقامی کارروائی تھی۔ اس سے پہلے روسی صدر ولادی میر پوتن نے کرائمیا کے پل پر دھماکے کو ’دہشت گرد حملہ‘ قرار دیا تھا۔
پیر کو کیے جانے والے روس کے یہ تازہ حملے جنگ کے ابتدائی دنوں کے بعد سے یوکرین کے دارالحکومت کو نشانہ بنانے والے حملوں میں سب سے زیادہ شدید تھے۔
حملے کی وجہ سے شہری بم حملے میں محفوظ رہنے کے لیے پناہ ہوں کی طرف بھاگے جب کہ دھویں کے بادل آسمان کی جانب اٹھتے ہوئے دکھائی دیے۔
یوکرین کے مغرب میں لویو، ترنوپل اور ژتومر اور وسطی یوکرین میں نیپرو کے شہروں میں بھی دھماکے رپورٹ کیے گئے ہیں۔
کیئف کے مصروف ترین چوکوں میں سے ایک چوک میں بڑا گڑھا بن گیا گیا تھا۔ گاڑیوں اور عمارتوں کو نقصان پہنچا۔ دھماکے کے بعد امدادی کارکن جائے وقوعہ پر پہنچ گئے۔
کیئف کی مرکزی تاراس شیوچینکو یونیورسٹی میں عمارتوں کے کھڑکیاں اکھڑ گئیں۔ نیشنل گارڈ کے دستے مکمل جنگی سازوسامان اور اسالٹ رائفلیں لے کر یونیورسٹی کے عمارت کے باہر پہنچ گئے۔
کیئف کے میئر وتالی کلیسچکو نے سوشل میڈیا پر اپنی پوسٹ میں کہا ہے کہ ’دارالحکومت روسی دہشت گردوں کے حملے کی زد میں ہے، میزائلوں نے شہر کے مرکز (شیوچینکیوسکی ضلعے میں) اور سولومینسکی ضلعے میں مقامات کو نشانہ بنایا۔ فضائی حملے کے سائرن بج رہے ہیں اور اس وجہ سے خطرہ برقرار ہے۔‘
’قانونی نافذ کرنے والے افسروں نے کیئف کی شاہراہیں بند کر رکھی ہیں اور امدادی کارکن کام میں مصروف ہیں۔‘
ملک کے ہنگامی خدمات کے ادارے کے ترجمان نے کہا کہ روسی حملے میں لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں تاہم فوری طور پر کوئی اعداد و شمار فراہم نہیں کیے گئے۔
دوسری جانب روسی صدر پوتن نے اتوار کو کہا تھا کہ وہ دھماکہ جس نے آبنائے کرچ پر جزیرہ نما کرائمیا جانے والے کے واحد پل کو نقصان پہنچایا ’دہشت گردی کی کارروائی تھی جس کا مقصد انتہائی اہم شہری بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنا تھا۔‘
روسی صدر نے کریملن کے ٹیلی گرام چینل پر ویڈیو بیان میں کہا کہ ’اس دھماکے کا منصوبہ یوکرین کی سپیشل سروسز کے حکم پر بنایا گیا اور اسے عملی شکل دی گئی۔‘
یوکرین نے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن اس پر خوشی کا اظہار کیا۔ اعلیٰ روسی حکام نے پیر کو ملک کی سلامتی کونسل کے اجلاس سے قبل کریملن سے فوری جوابی کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔
کرائمیا کا یہ پل جنوبی یوکرین میں روسی افواج کو رسد کی فراہمی کا ایک بڑا راستہ اور کرائمیا پر روس کے کنٹرول کی علامت ہے۔ روس نے 2014 میں کرائمیا پر فوجی قبضے کے بعد اس کے اپنے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا تھا۔
روسی سلامتی کونسل کے نائب چیئرمین دمتری میدویدوف نے کونسل اجلاس سے قبل کہا کہ روس کو اس حملے کے ذمہ دار ’دہشت گردوں ‘ کو ہلاک کر دینا چاہیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
روس کے سرکاری خبر رساں ادارے تاس کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ ’روس اس جرم کا جواب صرف دہشت گردوں کو براہ راست مار کر ہی دے سکتا ہے جیسا کہ دنیا میں کہیں بھی ہوتا ہے۔ روسی شہری یہی توقع کرتے ہیں۔‘
روس کی تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ الیگزینڈر باستریکن نے اتوار کو کہا کہ پل پر ایک گاڑی میں دھماکہ ہوا جس سے آگ لگ گئی۔
انہوں نے کہا کہ گاڑی نے پل تک پہنچنے سے پہلے بلغاریہ، جارجیا، آرمینیا، شمالی اوسیشیا اور روس کے کراسنودار کے علاقے میں سفر کیا۔ باستریکن نے کریملن کے ٹیلی گرام چینل پر ویڈیو میں مزید کہا کہ حملے کی تیاری میں یوکرین کی سپیشل فورسز کی مدد کرنے والوں میں ’روس اور بیرونی ممالک کے شہری‘ شامل تھے۔
زاپورژیا پر تازہ حملہ
علاقے کے گورنر اولیکساندر ستارخ نے پیر کو کہا ہے کہ جنوب مشرقی یوکرین میں رات بھر جاری رہنے والی روسی گولہ باری سے زاپورژیا شہر میں ایک اور رہائشی عمارت تباہ ہو گئی ہے۔
شہری انتظامیہ کے عہدے دار نے بتایا کہ حملے میں کم از کم ایک شخص ہلاک اور پانچ زخمی ہوئے۔
سورج نکلنے سے پہلے کیا جانے والا یہ حملہ چار دنوں میں شہر کی رہائشی عمارتوں پر تیسرا روسی میزائل حملہ تھا۔ یہ شہر جس پر روسی فوج کبھی قبضہ نہیں کر سکی ان چار جزوی طور پر مقبوضہ علاقوں میں سے ایک کا دارالحکومت ہے جن کا روس نے اس مہینے اپنے ساتھ الحاق کا دعویٰ کیا ہے۔
یوکرینی حکام کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے اتوار کو شہر پر روسی حملے میں 13 افراد ہلاک اور 87 زخمی ہو گئے تھے جن میں بچے بھی شامل ہیں۔ یوکرین کے صدر وولودی میر زیلنسکی نے اس حملے کو مکمل برائی قرار دیا تھا۔
دوسری جانب روس شہریوں کو نشانہ بنانے کی تردید کرتا ہے۔ زاپورژیا میں روس کی تشکیل شدہ انتظامیہ کے ایک اہلکار ولادی میر روگوف نے بغیر کسی ثبوت کے کہا کہ یوکرین کی افواج نے پروپیگنڈے کے مقاصد کے لیے شہر پر گولہ باری کی تھی۔
روس کو ستمبر کے آغاز سے ہی میدان جنگ میں بڑی ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یوکرین کی فوجیں روس کی اگلے محاذ پر موجود فوج کو ناکامی سے دوچار کرتے ہوئے اور شمال مشرق اور جنوب کے علاقے واپس لے رہی ہیں۔