قیدیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم جسٹس پراجیکٹ پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق آرمی پبلک سکول حملے کے بعد سے 2019 تک پاکستان میں 516 افراد کو ملنے والے سزا موت پر عملدرآمد کرتے ہوئے ان کو پھانسی لگا دی گئی۔
دسمبر 2019 کے بعد کسی بھی فرد کو پھانسی کی سزا تو نہیں ہوئی مگر اس کے باوجود ملک میں غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 3831 افراد ’موت کی قطار‘ یا ڈیتھ رو میں ہیں۔
سزائے موت کے قانون کے خلاف عالمی دن کے موقع پر انڈپینڈنٹ اردو کی جانب سے پاکستان میں سزا موت کے قانون پر عملدرآمد کا جائزہ لیا گیاہے۔ دنیا بھر میں ہر سال 10 اکتوبر کو سزائے موت کے قانون کے خلاف عالمی دن منانے کے ساتھ اس سزا کو سرے سے ختم کرنے کے دن کے طور پر بھی منایا جاتا ہے۔
پاکستان میں 16 دسمبر 2019 کو آرمی پبلک اسکول پشاور پر 2014 میں ہونے والے شدت پسند حملے میں سہولت کاری کے الزام میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے رہنما تاج محمد ولد الف خان کو پھانسی دے دی گئی تھی۔
اس کے بعد کسی بھی فرد کو پھانسی تو نہیں ہوئی مگر سات اکتوبر 2022 تک پاکستان میں جن لوگوں کو سزائے موت سنائی گئی ہے ان کی تعداد 22 خواتین سمیت تین ہزار 831 تک پہنچ گئی ہے۔
ان میں سب سے زیادہ تعداد پنجاب کی ہے جبکہ دوسرا نمبر سندھ کا ہے جہاں کوئی بھی خاتون نہیں۔
خیبرپختونخوا میں دو خواتین سمیت 355 اور بلوچستان میں 61 افراد کو سزا موت سنائی گئی۔
ان لوگوں کو گذشتہ کئی سالوں کے دوران سزا سنائی گئی۔ اب ان میں سے کئی کی رحم کی اپیل کی درخواست صدر پاکستان یا دیگر سرکاری جگہوں پر پہنچی ہوئی ہے اور ان کی سزا پر تاحال عملدرآمد نہیں ہوا ہے۔ یہ افراد ’موت کی قطار‘ یا عدالتی زبان ’ڈیتھ رو‘ میں ہیں۔
’ڈیتھ رو‘ کیا ہوتی ہے؟
کراچی کے معروف قانون دان اور کرمنل قانون کے ماہر وکیل شوکت حیات مطابق کسی فرد پر کسی سنگین نوعیت کا جرم ثابت ہونے کے بعد جیسے ہی کیپیٹل پنشمنٹ یا سزائے موت سنائی جاتی ہے تو ان کو عام قیدیوں سے الگ جیل میں ایک مخصوص جگہ منتقل کردیا جاتا ہے۔ اس جگہ کو ڈیتھ سیل کہا جاتا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے شوکت حیات نے بتایا: ’ڈیتھ سیل‘ کی سخت سکیورٹی کی جاتی ہے، وہاں رکھے ہوئے قیدیوں کو جیل میں موجود دیگر قیدیوں سے الگ تھلگ رکھا جاتا ہے۔ کیوں کہ اب ان کو سزا موت سنادی گئی ہے اور وہ لوگ پھانسی کا انتظار کررہے ہیں تو ان کو تکنیکی زبان میں ’موت کی قطار‘ یا ڈیتھ رو کہا جاتا ہے۔‘
شوکت حیات کے مطابق: ’اس مخصوص جگہ یا ڈیتھ رو کے اندر چھوٹے سیل ہوتے ہیں جہاں ان قیدیوں کو الگ الگ رکھا جاتا ہے۔ دن میں دو بار سخت پہرے میں کو قیدیوں کو ان کے سیل سے باہر آنے دیا جاتا ہے۔ ان کی ملاقات کے لیے ایک مخصوص بیرک ہوتی ہے۔‘
سابق انسپکٹر جنرل (آئی جی) جیل خانہ جات نصرت حسین منگن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ڈیتھ سیل میں آنے والے قیدیوں کو جیل میں موجود دیگر قیدیوں کی نسبت بہت بہتر طریقے سے ڈیل کیا جاتا ہے۔ ان قیدیوں کو بہتر کھانا دینے کے ساتھ ان کا بہت زیادہ خیال کیا جاتا ہے۔‘
قومی احتساب بیورو پاکستان یا نیب کے ایک کیس میں سات سال تک کراچی کی سینٹرل جیل میں قید مکمل کرکے تین مہینے پہلے باہر آنے والے عرفان موسیٰ نے انڈپینڈنٹ اردو کو ٹیلی فون پر بتایا: ’مجھے سزا تو سات سال کی ہوئی تھی، مگر اچھے چال چلن اور جیل میں فلاحی کاموں میں حصہ لینے کے باعث وقت سے پہلے آزادی مل گئی۔ قید کے دوران میں نے قیدیوں کی فلاح کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کے ساتھ کام کیا۔ ہم جیل میں ہر جگہ جاتے تھے۔ مگر ہمیں ڈیتھ سیل میں جانے کی اجازت نہیں تھی۔‘
’ڈیتھ سیل ایک پراسرار جگہ ہے۔ وہاں سخت پہرہ ہوتا ہے اور کوئی بھی غیر متعلقہ فرد وہاں نہیں جاسکتا۔‘
اے پی ایس حملے کے بعد پھانسیوں کی تعداد؟
صدر آصف علی زرداری نے منتخب ہونے کے بعد سزائے موت پر عمل درآمد روک دیا تھا۔ ان کے اس فیصلے پر اعلی عدلیہ کی جانب سے تنقید بھی کی گئی تھی مگر سرکاری طور پر سزائے موت پر عمل درآمد نہیں ہونے دیا گیا۔ کیوں کہ صدر کو آئین کے تحت اختیار ہے کہ وہ عدالت کی طرف سے کسی بھی مجرم کو دی گئی پھانسی پر عمل درآمد روک سکتا ہے یا پھر سزا کو عمر قید میں تبدیل یا سزا میں تخفیف کرسکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آرمی پبلک سکول پشاور پر 16 دسمبر 2014 کو ہونے والے شدت پسند حملے میں ملوث افراد کے مقدمات کی فوری سماعت کے لیے فوجی عدالتیں قائم کی گئیں اور اس کے لیے پاکستان آرمی ایکٹ میں اسمبلی سے ترمیم بھی کی گئی تھی۔
اس سلسلے میں دو اپریل 2015 ایک فوجی عدالت نے دہشت گردی کے مقدمات میں ملوث چھ مجرمان کو سزائے موت سنائی، جس کی بعد میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے توثیق بھی کی تھی اور مجرمان کو پھانسی دے دی گئی تھی۔
جسٹس پراجیکٹ پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق دو اپریل 2015 سے 16 دسمبر 2019 کے درمیاں پاکستان میں 516 افراد کو پھانسی پر لٹکادیا گیا۔
’ڈیتھ سیل‘ سے باہر آنے والے کئی سالوں بعد بھی دہشت زدہ
انڈپینڈنٹ اردو کی جانب سے ڈیتھ سیل میں زندگی کے متعلق جاننے کے لیے سزائے موت ملنے کے بعد ’ڈیتھ سیل‘ میں کئی سال گزارنے کے بعد باہر آنے والے افراد سے بات کرنے کی کوشش کی مگر ڈیتھ سیل سے باہر آنے کے کئی سال بعد بھی ان پر اتنی دہشت طاری ہے کہ کسی نے بھی بات کرنے سے انکار کردیا۔
کراچی کے علاقے سعودہ باد کی رہائشی خاتون، جن کو تہرے قتل کے الزام میں سزا موت سناکر ڈیتھ سیل بھیجا گیا۔ مگر بعد میں سپریم کورٹ نے ’مطلوبہ شواہد‘ نہ ہونے پر انہیں رہائی دی تھی۔ رہائی کے چار سال بعد جب ان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ اس پر کوئی بات نہیں کرنا چاہتیں۔
ایک اور شخص جو دو سال قبل ڈیتھ سیل سے باہر آیا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ اس پر بات کرنا تو دور اس کی بات سوچنا بھی نہیں چاہتا۔
پاکستان میں سزا موت قانون کا خاتمہ کتنا ممکن؟
وکیل شوکت حیات کے مطابق جب تک معاشرہ ترقی نہیں کرتا، عوام میں شعور نہیں آجاتا، تب تک سزا موت کے قانون کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے شوکت حیات نے کہا: ’مغربی ممالک میں پھانسی کے خلاف سخت احتجاج کے بعد وہاں اس قانون کو مکمل طور پر ختم کردیا گیا ہے۔ تو اب وہاں کوئی بھی بندوق لے کر نکلتا ہے اور کئی درجن افراد یا بچوں پر فائرنگ کرکے ہلاک کردیتا ہے۔ تو اب وہاں بھی سوال اٹھ رہے ہیں کہ کیا اس قانون کو دوبارہ لاگو کیا جائے۔
’پاکستان میں جرم عام ہے، سنگین نوعیت کے جرائم مرتکب ہوتے ہیں۔ کسی خاتون کو کاری کرکے ماردیا جاتا ہے۔ اس لیے پاکستان میں پھانسی کی سزا والا قانون تاحال ختم نہیں ہوسکا ہے۔ اس قانون تب ہی ختم ہوسکتا ہے جب معاشرہ ترقی یافتہ ہو اور عوام کو شعور آجائے۔‘
’ریاست پھانس کی سزا پر فوری سرکاری پابندی عائد کرے‘
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) کی چیئرپرسن حنا جیلانی نے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان کی ریاست ملک میں پھانسی کی سزا پر فوری طور پر سرکاری پابندی عائد کرے۔
سزائے موت کے خلاف عالمی دن کے موقع پراپنے بیان میں حنا جیلانی نے کہا سزائے موت پاکستان کے اُس عالمی عہد کے منافی ہے جو اِس نے تشدد اور ظالمانہ، غیرانسانی یا اہانت آمیز سزا کی روک تھام کے ضمن میں عالمی برادری سے کر رکھا ہے۔
بیان کے مطابق ایچ آر سی نے یہ بھی مشاہدہ کیا ہے کہ پاکستان میں قاعدے، قانون سے ہٹ کر دی جانے والی پھانسیوں سے متعلق سرکاری اعدادوشمار دستیاب نہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے لیے کسی کا محاسبہ بھی نہيں ہوتا۔ اس سے فوجداری نظامِ انصاف میں سنگین سقم کی نشاندہی ہوتی ہے۔
بیان کے مطابق ایچ آر سی پی کا مطالبہ ہے کہ ریاست پھانسیوں پر فی الفور سرکاری پابندی عائد کرے اور ایسے سرکاری اہلکاروں کا محاسبہ یقینی بنائے جو شہادت اکٹھی کرنے کے لیے تشدد کا سہارا لیتے ہیں۔