16 اکتوبر کو قومی اسمبلی کی آٹھ نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی چھ نشستوں پر جیت کو جہاں ان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے جوڑا جا رہا ہے، وہیں یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا سیاسی منظر نامے پر اس جیت کی اہمیت ہے؟
کیا اس سے آئندہ عام انتخابات میں ان کی سیاسی جماعت کو کوئی فائدہ پہنچے گا؟ اور کیا حالیہ ضمنی انتخاب کے نتائج مستقبل کی سیاست کی سمت طے کریں گے یا یہ محض پاور شو ہی ہے؟
قومی اسمبلی کی آٹھ نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں سے سات نشستوں پر پی ٹی آئی چیئرمین خود امیدوار تھے، جن میں سےچھ پر وہ کامیاب ہوئے۔ ان کی جماعت کی جانب سے اسے ’بہت بڑی جیت‘ اور ’عوامی ریفرنڈم‘ قرار دیا جا رہا ہے لیکن کیا اس کے دور رس نتائج ممکن ہیں؟
انڈپینڈنٹ اردو نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ سابق وزیر اعظم کے پاس وہ کیا آپشنز ہو سکتے ہیں جو ان کی سیاسی جماعت کو ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بنا سکیں اور یہ بھی کہ آیا حالیہ انتخابی نتائج حکومت کے لیے پریشان کن ہو سکتے ہیں؟
’عمران خان کی کامیابی عوام کی خواہشات سے کھیلنا‘
عمران خان کی چھ نشستوں پر کامیابی سے متعلق الیکشن کمیشن کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جب تک عمران خان کا استعفیٰ منظور نہیں ہوتا تب تک حالیہ انتخابی نتائج کا معاملہ limbo (حالت فراموشی) میں رہے گا کیونکہ یہ نمائندگی نہیں عوام کی خواہشات سے کھیلنا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ تحریک انصاف کے چیئرمین چونکہ ایک نشست پہلے سے رکھتے ہیں تو مجوعی طور پر سات میں سے چھ نشستوں سے استعفیٰ دینا ہوگا، جن پر دوبارہ انتخابات ہوں گے اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔
’اس وقت عمران خان کا استعفیٰ منظور نہیں ہوا، اس لیے وہ نئی نشست سے حلف نہیں اٹھا سکتے۔ نئی نشست سے حلف لینےکے لیے باقی نشستیں چھوڑنی پڑیں گی۔ اگر استعفیٰ منظور نہیں ہوتا تو نئی نشست سے کیسے حلف اٹھا سکتے ہیں؟‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’عمران خان موجودہ اسمبلی میں نہیں بیٹھنا چاہتے، اب دیکھنا یہ ہے کہ باقی نشستوں پر وہ دوبارہ خود انتخابات میں حصہ لیتے ہیں یا دیگر رہنماؤں کو کھڑا کرتے ہیں۔ عمران خان جان بوجھ کر مخصوص اداروں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور الیکشن کمیشن ان کے لیے ایک آسان ہدف ہے۔‘
تحریک انصاف نے ضمنی انتخاب کے فوراً بعد 18 اکتوبر کو چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی برطرفی کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک ریفرنس بھی دائر کیا ہے۔
دس صفحات پر مشتمل ریفرنس میں چیف الیکشن کمشنر پر حلف اور الیکشن کمیشن کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی سمیت پی ٹی آئی کے اراکین قومی اسمبلی کے استعفوں کے معاملے پر جانبدارانہ رویہ اختیار کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔
عمران خان کی کامیابی حکومت کو مذاکرات پر مجبور کر سکتی ہے؟
گورننس، ٹرانسپرنسی اور پارلیمانی قانون سازی پر کام کرنے والے ادارے پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ الیکشن کے بعد عمران خان کے پاس پارلیمان میں جانے کا آپشن اب بھی موجود ہے۔ ’عمران خان کا مقصد ملک کے طاقتور حلقوں کو پیغام دینا تھا کہ وہ عوام میں کتنے مقبول ہیں۔ اس سب سے ان کی مذاکرات کی پوزیشن بہتر ہونی چاہیے۔‘
بلال محبوب نے بتایا کہ ’عمران خان کے پاس لانگ مارچ کا آپشن بھی موجود ہے، جس کی وہ دھمکی بھی دے رہے ہیں اور جس سے شہر کا نظام بھی معطل ہو سکتا ہے۔ اگر وہ لانگ مارچ کر لیں تو اس کے بعد ان کے پاس کیا بچے گا؟ سابق وزیر اعظم درمیانی فریق کے ذریعے بیک ڈور رابطے کرنے کے ساتھ ساتھ سیاست دانوں سے براہ راست بات بھی کر سکتے ہیں۔ اس حوالے سے صدر مملکت عارف علوی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔‘
ساتھ ہی انہوں نےکہا: ’سابق وزیراعظم سیاسی گوریلا وار فیئر کرتے ہوئے ملک کے سیاسی نظام میں خلل ڈالنا چاہتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں آپ کے پاس طاقت نہیں ہوتی لیکن آپ ایک بڑی طاقت کو زچ کر دیتے ہیں، جس سے وہ آپ کی بات ماننے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ عمران خان کا مقصد قومی اسمبلی میں جانا نہیں ہے۔ اگر وہ پارٹی کے دیگر رہنماؤں کو الیکشن لڑوا دیتے تو اتنے بڑے اثرات نہ پڑتے جتنے آج ہیں۔‘
آئین کیا کہتا ہے؟
آئین پاکستان کے آرٹیکل 223 کے مطابق اگر کوئی شخص ایک سے زائد نشستوں پر منتخب ہو جائے تو وہ ان نشستوں میں سے آخری نشست کے نتیجے کے اعلان کے 30 دن کی مدت کے اندر ایک کے علاوہ تمام نشستوں سے استعفیٰ دے گا اور اگر وہ استعفیٰ نہ دے تو اس ایک نشست کے علاوہ تمام نشستیں خالی ہو جائیں گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہاں صورت حال اس طرح مختلف ہے کہ عمران خان کے پاس ان چھ نشستوں سے پہلے ہی ایک نشست موجود ہے، جس پر سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی جانب سے استعفیٰ منظور ہونا باقی ہے۔
جب تک عمران خان کا استعفیٰ قبول نہیں ہوتا تب تک ان کے پاس یہ نشست رہے گی۔ دوسری جانب حالیہ ضمنی انتخابات میں بیک وقت چھ نشستوں سے جیتنا قومی اسمبلی میں ان کی پوزیشن کو مضبوط نہیں کرتا کیونکہ یہ نشستیں چھ افراد کے بجائے ایک ہی فرد نے جیتی ہیں۔
پارلیمان میں قانون سازی کرنے سے متعلق شعبے کے ایک عہدیدار نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’سابق وزیراعظم کا ضمنی انتخابات میں چھ نشستیں جیتنا ان کا ووٹ بینک ہی دکھا سکتا ہے کیونکہ جیتی گئی نشستیں ضائع ہو گئی ہیں۔‘
عہدیدار نے مزید کہا: ’اگر کل پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں واپس آ جائے تب بھی تحریک عدم اعتماد نہیں لا سکتی اور نہ ہی عمران خان وزارت عظمیٰ حاصل کرسکتے ہیں بلکہ اس سارے عمل سے موجودہ وزیراعظم شہباز شریف کو فائدہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔‘
پی ٹی آئی کا کیا موقف ہے؟
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما سینیٹر بیرسٹر علی ظفر سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے اس معاملے پر بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ’عمران خان کے الیکشن لڑنے کا ایک خاص مقصد تھا جبکہ عوام کو بتا دیا گیا تھا کہ وہ قومی اسمبلی جوائن نہیں کریں گے۔‘
بقول بیرسٹر علی ظفر: ’اس کا مقصد لوگوں سے پوچھنا تھا کہ کیا وہ ہمارے مطالبات سے متفق ہیں؟ یہ ایک ریفرنڈم تھا۔ سابق وزیر اعظم کے پاس جیتے گئے چھ حلقوں پر حلف نہ لینے کا آپشن بھی موجود ہے۔ اگر دوبارہ بھی ضمنی انتخابات ہوتے ہیں تو عمران خان اسی طرح تمام نشستوں سے الیکشن لڑیں گے۔‘