کراچی کے علاقے مچھر کالونی میں جمعے کو مشتعل افراد کے تشدد کے نتیجے میں دو افراد کے قتل کے واقعے کے عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ علاقے میں بچوں کے اغوا کا خوف پہلے سے ہی تھا اور جب یہ افواہ پھیلی کہ یہ دونوں افراد بچے اغوا کرنے آئے تو ہیں لوگوں نے ان پر تشدد شروع کردیا۔
پولیس کے مطابق ہجوم کے ہاتھوں قتل کا یہ واقعہ جمعہ (28 اکتوبر) کو مچھر کالونی میں پیش آیا تھا، جہاں بنگالی پاڑے کی ایک مسجد کے سامنے مشتعل افراد نے ٹیلی کام کمپنی کے ایک انجینیئر اور ڈرائیور کو تشدد کرکے ہلاک کردیا تھا۔
واقعے کا مقدمہ مقتول ڈرائیور اسحاق پنہور کے چچا محمد یعقوب پنہور کی مدعیت میں ڈاکس تھانے میں 15 معلوم اور کئی نامعلوم افراد کے خلاف انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج کیا گیا جبکہ مقدمے میں نامزد افراد میں سے تین افراد کو جمعے کی رات گرفتار کرلیا گیا۔
کراچی کے علاقے کیماڑی کی یونین کونسل 42 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے جنرل سیکریٹری اور مچھرکالونی کے رہائشی عبدالستار مندھرو نے اس واقعے کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو ٹیلی فون پر بتایا: ’مچھر کالونی ایک پسماندہ علاقہ ہے، یہاں پر اکثریت لوگ غریب ہیں۔ اس علاقے میں گذشتہ کئی دنوں سے یہ افواہ پھیلی ہوئی تھی کہ کچھ لوگ بچوں کو اغوا کرکے لے جاتے ہیں اور ان کے دل، گردہ اور دیگر عضو نکال کر فروخت کرتے ہیں۔‘
عبدالستار مندھرو کے مطابق: ’ان افواہوں کے بعد ہماری کالونی میں کوئی بھی شخص اپنے بچوں کو اکیلا سکول بھی نہیں جانے دیتا۔ بچوں کو کھیل کود کے لیے بھی نہیں چھوڑا جارہا۔ لوگوں میں اس افواہ کے بعد بہت خوف ہے۔ ایسے میں جب کسی نے کہا کہ یہ دونوں افراد بچوں کو اغوا کرنے آئے ہیں، تو لوگ مشتعل ہوگئے۔‘
عبدالستار مندھرو کے مطابق: ’مرنے والے دونوں افراد اپنی گاڑی میں کل صبح سے ہی علاقے میں گھوم رہے تھے۔ انہوں نے ہمارے پڑوس کی ایک دکان پر فون کے سگنل کی شکایت کے متعلق بھی معلوم کیا تھا۔
‘مجھے ایک علاقہ مکین نے بتایا کہ صبح ان کی گاڑی کے سامنے ایک بچہ آگیا جو رو رہا تھا، جس پر انہوں نے اس بچے کو چپ کروایا اور برابر والی دکان سے اسے کھانے کی اشیا بھی دلائیں۔ اس پر لوگوں نے ایک دوسرے کو بولا کہ یہ دونوں بچوں کو چیز لے کر دے رہے ہیں۔ اس کے بعد علاقے کے کچھ نوجوان ان کے پاس جاکر پوچھ گچھ بھی کرتے رہے۔
’مگر اس دوران علاقے میں یہ افواہ پھیل چکی تھی کہ یہ لوگ بچوں کو اغوا کرنے آئے ہیں، جس پر مشتعل ہجوم نے جمع ہو کر انہیں بے دردی سے مارنا شروع کردیا، جس سے وہ دونوں چل بسے۔ میں جب پہنچا تو اس وقت لاشوں کو اٹھایا جارہا تھا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس واقعے کے بعد سے علاقے میں خوف کا عالم ہے۔ انڈپینڈنٹ اردو نے علاقے کے کئی افراد سے بات کرنے کی کوشش کی، مگر سب نے یہ کہہ کر بات کرنے سے انکار کردیا کہ انہیں کچھ بھی معلوم نہیں۔
عبدالستار مندھرو کے پڑوسی شاہ عالم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’علاقے میں بچوں کے اغوا کا خوف کئی دنوں سے ہے۔ جب بھی کسی مسجد سے بچے کی گمشدگی کا اعلان ہوتا تو لوگ پریشان ہوجاتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ شام تک وہ بچہ مل جاتا تھا، مگر لوگوں میں ایک خوف تھا۔ اب مجھے نہیں معلوم کہ اس خوف کا اس واقعے سے کیا تعلق ہے۔‘
اس واقعے کے حوالے سے جب ایس ایچ او ڈاکس پرویز سولنگی سے استفسار کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ’تشدد سے ہلاک ہونے والے انجینیئر اور ڈرائیور نے علاقے کے چند لوگوں سے رہنمائی کے لیے راستہ پوچھا تھا، جس پر علاقے میں یہ افواہ پھیل گئی کہ دونوں گاڑی لے کر بچے اغوا کرنے آئے ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ دونوں افراد علاقے میں موبائل فون سگنل نہ آنے کی شکایت پر ٹاور چیک کرنے آئے تھے، لیکن ان کے آنے کے بعد علاقے میں افواہ پھیل گئی کہ وہ بچوں کو اغوا کرنے آئے ہیں۔ اس پر لوگ جمع ہوکر ان پر تشدد کرنے لگے جو بعد میں سنگین ہوگیا۔‘
سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) کیماڑی فدا حسین جانوری نے مقامی میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ پولیس واقعے کی مختلف زاویوں سے تحیقات کر رہی ہے۔
مقتول ڈرائیور کے چچا محمد یعقوب پنہور پاکستان نیوی سے ریٹائر ہونے کے بعد کراچی میں ایک کمپنی میں بطور سکیورٹی گارڈ کام کرتے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’جب میں نے ہسپتال میں رکھی لاشیں دیکھی تو ان کی حالت ایسی تھی کہ اگر کوئی انتہائی سنگدل ترین شخص بھی دیکھے تو آنسو نہ روک پائے۔ بڑا ظلم ہوا ہے۔ امید کرتے ہیں کہ ہمیں انصاف ملے گا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ کہ اسحاق پنہور کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے اور وہ گذشتہ چھ مہینوں سے ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی میں ڈرائیور کے طور پر ملازمت کر رہے تھے۔
اس واقعے کی کئی ویڈیوز سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہیں، جن میں نوجوانوں سمیت بزرگ اور خواتین بھی بھاری پتھروں اور لوہے کی راڈوں کے ساتھ دونوں افراد پر حملہ کرتے دیکھے گئے۔