مچھر کالونی تشدد کیس: ’اس واقعے پر اہل علاقہ افسردہ ہیں‘

جمعے کی صبح نجی ٹیلی کام کمپنی کے ایک انجینیئر اور ڈرائیور کو بچے اغوا کرنے کے الزام میں تشدد کرکے ہلاک کر دیا گیا تھا۔

بھاری پتھروں کے ڈھیر میں موجود چھوٹے بڑے کنکروں پر ابھی تک خون کے نشان صاف نظر آتے ہیں۔

پتھروں کے برابر میں دری پر بیٹھی چار درجن سے زائد کالے برقعوں میں ملبوس خواتین اور کمسن بچیاں بلند آواز میں قرآن شریف پڑھ رہی ہیں۔

لال دوپٹہ پہنے ایک کمسن بچی خواتین کے ہجوم کے عین بیچ میں سفید رنگ کا ایک بڑا کارڈ اٹھائے کھڑی ہے۔

اس کارڈ پر لکھا ہے کہ ’اس واقعے پر اہل علاقہ افسردہ ہیں۔‘

یہ مناظر کراچی، مچھر کالونی کے بنگالی محلہ، الہٰی مسجد کے سامنے والی گلی کے ہیں جہاں جمعے کی صبح نجی ٹیلی کام کمپنی کے ایک انجینیئر اور ڈرائیور کو بچے اغوا کرنے کے الزام میں پتھر مار کر تشدد کرکے ہلاک کر دیا گیا تھا۔  

ہلاک ہونے والوں کی شاخت ٹھٹہ سے تعلق رکھنے والے انجینیئر ایمن جاوید اور نوشہرو فیروز سے تعلق رکھنے والے ڈرائیور اسحاق پنہور کے نام سے ہوئی ہے جو علاقے میں سگنل نہ آنے کی شکایت پر آئے تھے تاکہ شکایت دور کرسکیں۔

مچھر کالونی کے رہائشی اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما محمد طاہر اشرف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ کالونی میں ایک نجی سکول چلاتے ہیں اور جمعے کے دن جب وہ اپنے سکول میں بیٹھے تھے تو کسی نے اطلاع دی کہ کچھ لوگوں کو پکڑا گیا ہے جو بچوں کو اغوا کرتے ہیں، مگر بعد میں علم ہوا کہ وہ اغوا کار نہیں تھے۔

محمد طاہر اشرف کے مطابق ’ایسا بھی کہا گیا کہ مسجد سے اعلانات ہوئے ہیں کہ اغوا کار آئے ہیں مگر ایسا اعلان نہیں ہوا، غلط فہمی کے بنیاد پر ہوا، پولیس اب بہت سے لوگوں کو بے گناہ پکڑ رہی ہے۔ اس لیے ہم درخواست کرتے ہیں کہ جو قصوروار ہیں ان کو سزا دی جائے مگر بے قصور کو نہ پکڑا جائے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 دوسری جانب ڈاکس پولیس کی جانب سے اس واقعے میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار چار ملازمین کو شناخت پریڈ کے لیے جوڈیشل مجسٹریٹ ضلع کراچی غربی میں پیش کیا گیا۔ واقعے کے دو عینی شاہدین نے چاروں ملزمان کو شناخت کرلیا ہے۔

عینی شاہدین نے عدالت کو بتایا کہ ان ملزمان نے ٹیلی کام ملازمین پر اینٹوں اور پتھروں سے تشدد کیا تھا۔ ایک شاہد کے مطابق انہوں نے مقتولین کو بچانے کی کوشش کی تو ملزمان نے ان کو بھی پتھر مارکر زخمی کردیا۔ عدالت نے شناختی پریڈ کی کارروائی کو مقدمے کے ریکارڈ کا حصہ بنا دیا ہے۔

جبکہ پولیس نے مقدمے میں گرفتار مزید 12 ملزمان کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا جہاں کیس کے تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ ملزمان کو پہلے سے گرفتار ملزمان سے تفتیش سمیت ویڈیوز کی مدد سے شناخت کر کے گرفتار کیا گیا ہے اور مجموعی طور پر مقدمے میں گرفتار ملزمان کی تعداد 16 ہوگئی ہے۔

مقدمے میں 11 نامزد اور 250 نامعلوم ملزمان مفرور ہیں۔ ملزمان سے تفتیش اور سی آر او کے لیے جسمانی ریمانڈ درکار ہے۔ انسداد دہشت گردی عدالت نے ملزمان کو سات نومبر تک جسمانی ریمانڈ پر پولیس تحویل میں دے دیا ہے۔

دوسری جانب پولیس کے مطابق گرفتار ملزمان بنگالی زبان بولنے والے ہیں، جن میں کچھ افراد کا قومی شناختی کارڈ نہیں بنا ہوا، اس لیے نادرا میں ان کا کوئی ریکارڈ ہی موجود نہیں۔ اس لیے پولیس ان ملزمان پر فارن ایکٹ کی دفعات کے اندراج پرغور کررہی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان