شمالی کوریا نے جمعرات کو ایک طویل فاصلے اور دو مختصر فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل داغے، جن میں سے ایک کے باعث وسطی اور شمالی جاپان کے کچھ حصوں میں رہائشیوں کو پناہ لینے کے لیے الرٹ جاری کردیا گیا۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق جاپانی حکومت کی جانب سے ابتدا میں یہ انتباہ جاری کیا گیا تھا کہ ایک میزائل جاپان کے اوپر سے گزرا، تاہم بعدازاں ٹوکیو نے کہا کہ یہ درست نہیں۔
یہ تجربات شمالی کوریا کی جانب سے کم از کم 23 میزائل داغے جانے کے ایک روز بعد کیے گئے، جن میں سے ایک پہلی بار جنوبی کوریا کے ساحل پر گرا تھا۔
جے الرٹ ایمرجنسی براڈکاسٹنگ سسٹم کے مطابق شمالی جاپان کے میاگی، یاماگاتا اور نیگاتا کے رہائشیوں کو جمعرات کے روز متنبہ کیا گیا کہ وہ گھروں میں پناہ لیں۔
جاپان کے وزیر دفاع یاسوکازو ہمادا نے کہا ہے کہ حکومت کو بحیرہ جاپان کے اوپر سے میزائل کے گزرنے کا سراغ نہیں ملا۔ جس کے بعد انہیں اپنے پہلے اعلان کی تصحیح کرنی پڑی جس میں کہا گیا تھا کہ میزائل جاپان کے اوپر سے گزرا۔
انہوں نے نامہ نگاروں کو بتایا: ’ہم نے ایک ایسے میزائل کی لانچ کا پتہ لگایا، جس کے بارے میں ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ جاپان کے اوپر سے گزرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسی وجہ سے جے الرٹ جاری کیا گیا، لیکن پرواز کی جانچ پڑتال کے بعد ہم نے تصدیق کی کہ یہ جاپان کے اوپر سے نہیں گزرا۔‘
انہوں نے کہا کہ پہلے میزائل نے تقریباً دو ہزار کلومیٹر کی اونچائی اور 750 کلومیٹر کی رینج تک پرواز کی۔ اس طرح کی پرواز کے پیٹرن کو’لافٹڈ ٹریجیکٹری‘ کہا جاتا ہے، جس میں ہمسایہ ممالک کے اوپر پرواز سے بچنے کے لیے ایک میزائل خلا میں چھوڑا جاتا ہے۔
اس کے چند منٹ بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے جاپانی وزیراعظم فومیو کیشیدا نے کہا: ’شمالی کوریا کی جانب سے بار بار میزائل داغے جانے کے سلسلے کو قطعی طور پر معاف نہیں کیا جا سکتا۔‘
پہلی بار لانچنگ کی اطلاع ملنے کے تقریباً آدھے گھنٹے بعد جاپان کے کوسٹ گارڈ نے کہا کہ میزائل گر گیا تھا۔
جنوبی کوریا کی معروف نیوز سروس یونہاپ نیوز ایجنسی نے اطلاع دی ہے کہ پہلا میزائل دو حصوں میں تقسیم ہوگیا تھا، جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ بین البراعظمی بیلسٹک میزائل (آئی سی بی ایم) جیسا طویل فاصلے تک مار کرنے والا ہتھیار ہوسکتا ہے۔
جنوبی کوریا کے جوائنٹ چیفس آف سٹاف کا کہنا ہے کہ طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل کو شمالی کوریا کے دارالحکومت پیانگ یانگ کے قریب سے داغا گیا۔
پہلے تجربے کے تقریباً ایک گھنٹے بعد جنوبی کوریا کی فوج اور جاپانی کوسٹ گارڈ نے شمالی کوریا کی جانب سے دوسرے اور تیسرے میزائل داغے جانے کی اطلاع دی۔
جنوبی کوریا کا کہنا ہے کہ یہ دونوں پیانگ یانگ کے شمال میں واقع کیچون کے علاقے سے داغے گئے مختصر فاصلے تک مار کرنے والے میزائل تھے۔
بدھ کے روز شمالی کوریا کی جانب سے میزائل تجربات، جن میں جنوبی کوریا کے ساحل سے 60 کلومیٹر (40 میل) سے بھی کم فاصلے پر گرنے والا ایک میزائل بھی شامل تھا، کو جنوبی کوریا کے صدر یون سوک یول نے ان پروازوں کو’علاقائی تجاوزات‘ قرار دیا جبکہ واشنگٹن نے انہیں’لاپرواہی‘ قرار دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جنوبی کوریا نے بدھ کو ہونے والے میزائل تجربات کے جواب میں غیر معمولی فضائی حملوں کی وارننگ جاری کی اور اپنے میزائل داغے۔
شمالی کوریا نے امریکہ اور جنوبی کوریا سے بڑے پیمانے پر فوجی مشقیں روکنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’اس طرح کی اشتعال انگیزی کو مزید برداشت نہیں کیا جا سکتا۔‘
یہ اتحادی جو مشقیں کر رہے ہیں وہ اب تک کی سب سے بڑی فضائی مشقوں میں سے ایک ہیں، جس میں سینکڑوں جنوبی کوریائی اور امریکی جنگی طیارے، جن میں ایف-35 لڑاکا طیارے بھی شامل ہیں، حصہ لے رہے ہیں۔
چار اکتوبر کو شمالی کوریا نے درمیانی فاصلے تک مار کرنے والا بیلسٹک میزائل فائر کیا تھا، جو جاپانی علاقوں کے اوپر سے ہوکر گزرا تھا۔ گذشتہ پانچ سال میں کیا جانے والا بیلسٹک میزائل کا یہ پہلا تجربہ تھا، جو امریکی علاقے گوام تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
یہ میزائل جن علاقوں کے اوپر سے گزرا وہاں کے لوگوں کو حفاظتی پناہ لینے کی ہدایت کی گئی تھی۔
شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن کہہ چکے ہیں کہ شمالی کوریا ایک ایسی ایٹمی طاقت ہے، جسے ’واپس نہیں پلٹایا جا سکتا۔‘ اس طرح شمالی کوریا کو ایٹمی ہتھیاروں کے حصول سے دور رکھنے کے لیے مذاکرات کا امکان مؤثر انداز میں ختم ہو چکا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پیانگ یانگ نے اقوام متحدہ میں تعطل سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہتھیاروں کے اشتعال انگیز مزید تجربات کیے ہیں۔