سعودی عرب نے جمعرات کو الیکٹرک گاڑیاں بنانے کے میدان میں قدم رکھتے ہوئے اپنی پہلی کار ساز کمپنی کھولنے کا اعلان کر دیا۔
یہ اقدام دنیا میں تیل برآمد کرنے والے سب بڑے ملک کی معیشت کو متنوع بنانے کے وسیع تر عمل کا حصہ ہے۔
سعودی عرب کی نیوز ایجنسی ایس پی اے کے مطابق ’سیر‘ کے نام سے یہ کمپنی ’کاربن کے اخراج میں کمی لانے اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے میں سعودی عرب کی کوششوں میں کردار ادا کرے گی۔‘
فوکس کون نامی ادارے کے تعاون سے قائم ہونے والی اس کمپنی میں بی ایم ڈبلیو سے کمپونینٹ ٹیکنالوجی کا اشتراک کیا جائے گا۔
• شركة CEER أول علامة تجارية سعودية لصناعة السيارات الكهربائية في السعودية pic.twitter.com/kONeHJDzPq
— CeerHelp (@CeerHelp) November 4, 2022
ایس پی اے نے بتایا سعودی کمپنی سیر (CEER) ’مختلف قسم کی گاڑیاں ڈیزائن اور تیار کر کے سعودی عرب، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے علاقے میں فروخت کرے گی۔ ان گاڑیوں میں سیڈان اور ایس یو وی کاریں شامل ہیں۔‘
نیوز ایجنسی کے مطابق توقع کی جا رہی ہے کہ الیکٹرک کار کمپنی کی بدولت براہ راست اور بالواسطہ ملازمت کے 30 ہزار مواقع پیدا ہوں گے۔
ایس پی اے کا کہنا ہے کہ شیڈول کے مطابق سیر کمپنی کی تیار کردہ گاڑیاں 2025 میں دستیاب ہوں گی۔
اپریل میں سعودی عرب نے امریکہ میں قائم لوسِڈ موٹرز کے ساتھ معاہدے کا اعلان کیا تھا۔
یہ کمپنی سعودی عرب میں ایک کارخانہ قائم کر رہی ہے تاکہ اگلی دہائی کے دوران ایک لاکھ تک الیکٹرک گاڑیاں خرید سکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لوسڈ کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی طرح سیر بھی سعودی عرب کے خود مختار ویلتھ فنڈ کی مدد سے قائم کی گئی ہے۔
اس فنڈ کے سربراہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ہیں جن کے ویژن 2030 کے تحت اصلاحات کے ایجنڈے کا انحصار تیز معاشی ترقی کے تنوع پر ہے۔
شہزادہ محمد بن سلمان نے جمعرات کو کہا کہ ’سعودی عرب صرف نیا آٹوموبیل برانڈ ہی شروع نہیں کر رہا بلکہ ہم ایک صنعت اور ایکوسسٹم کا آغاز کر رہے ہیں جس میں بین الاقوامی اور مقامی سرمایہ کاری کے لیے کشش موجود ہے۔
’اس سے قابلیت کے مالک مقامی افراد کے لیے ملازمت کے مواقع پیدا ہوں گے، نجی شعبے کو تقویت ملے گی اور اگلی دہائی میں سعودی عرب کی مجموعی قومی پیداوار بڑھے گی۔‘
گذشتہ سال موسمیاتی تبدیلی پر سربراہ کانفرنس ’کوپ 26‘ سے پہلے سعودی عرب نے 2060 تک کاربن کا اخراج مکمل طور پر ختم کرنے کا مقصد حاصل کرنے کا عہد کیا تھا۔
سعودی حکام نے حال ہی میں فوسل ایندھن میں مزید سرمایہ کاری کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
اس کا استدلال ہے کہ توانائی کے تحفظ کی قیمت پر موسمیاتی تبدیلی پر توجہ مرکوز کرنے سے افراط زر اور دیگر اقتصادی مسائل میں اضافہ ہو گا۔