عمران خان کی غیرموجودگی: مارچ میں شرکا کی تعداد کیا ہو گی؟

پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کا دوبارہ آغاز جمعرات کو وزیر آباد سے ہی ہو رہا ہے لیکن پارٹی چیئرمین عمران خان کی غیر موجودگی میں کیا پی ٹی آئی خاطر خواہ لوگوں کو مارچ میں شامل کر سکے گی؟

چار نومبر 2022 کی اس تصویر میں پاکستان تحریک انصاف کے حامی افراد پارٹی چیئرمین پر حملے کے بعد پشاور میں احتجاجی مظاہرے میں شریک ہیں (اے ایف پی)

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا لاہور سے شروع ہونے والا لانگ مارچ جمعرات کو وزیر آباد سے دوبارہ براستہ راولپنڈی اسلام آباد کی جانب سفر کا آغاز کرے گا لیکن پارٹی چیئرمین عمران خان کی غیرموجودگی میں کیا پی ٹی آئی خاطر خواہ لوگوں کو مارچ میں شامل کر سکے گی، یہ ایک بڑا سوال رہے گا۔

لاہور سے 28 اکتوبر کو شروع ہونے والے مارچ پر گذشتہ ہفتے تین نومبر کو اس وقت فائرنگ کی گئی تھی جب وہ جی ٹی روڈ پر وزیر آباد کے علاقے سے گزر رہا تھا۔ اس فائرنگ کے نتیجے میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان سمیت تیرہ افراد زخمی ہوئے تھے، جس کے بعد مارچ کو روک دیا گیا تھا۔

لاہور سے انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ نگار ارشد چوہدری کے مطابق اگرچہ سرکاری طور پر ایسا کوئی منظم انتظام موجود نہیں جس سے لانگ مارچ میں شرکا کی تعداد کے بارے میں مصدقہ اعداد و شمار کے بارے میں معلوم کیا جا سکے تاہم صوبہ پنجاب کی سپیشل برانچ نے جو رپورٹ تیار کی تھی اس کے مطابق 28 اکتوبر کو لاہور کے لبرٹی چوک سے روانگی کے وقت ڈیڑھ کلومیٹر طویل لانگ مارچ کے شرکا کی تعداد لگ بھگ نو سے دس ہزار افراد پر مشتمل تھی جب کہ انٹیلی جنس بیورو کی رپورٹ کے مطابق پانچ سے چھ ہزار افراد ابتدا میں اس لانگ مارچ میں شامل تھے۔

وفاقی اور صوبائی ایجنسیوں کی جانب سے فراہم کردہ تفصیلات  کے مطابق وزیر آباد تک پی ٹی آئی لانگ مارچ میں دس سے پندرہ ہزار تک لوگ شریک رہے۔

لیکن تحریک انصاف کی قیادت یہ کہتی رہی ہے کہ لانگ مارچ کے آغاز کے بعد سے ہر شہر سے بڑی تعداد میں لوگ اس مارچ میں شریک ہوئے اور خود عمران خان بھی بار ہا کہہ چکے ہیں کہ جب یہ مارچ اسلام آباد پہنچے گا تو اس میں شامل لوگوں کی تعداد اس قدر ہو گی جو اس سے قبل کبھی کوئی اور جماعت اکٹھی نہ کر سکی۔

ادھر پنجاب پولیس کے انسپکٹر جنرل کے دفتر سے فراہم کردہ تفصیل کے مطابق اب لانگ مارچ میں شامل افراد کی سکیورٹی پر تعینات اہلکاروں کی تعداد میں لگ بھگ 50 فیصد تک اضافہ کیا جا رہا ہے۔

عمران خان کے قافلے پر فائرنگ سے قبل احتجاج اور مارچ کی سکیورٹی پر 4300 اہلکار تعنیات تھے، جن کی تعداد اب بڑھا کر چھ ہزار کر دی گئی ہے۔

سندھ اور خیبر پختونخوا سے بھی تحریک انصاف کے قافلے لانگ مارچ میں شرکت کے لیے اسلام آباد پہنچیں گے لیکن تاحال اس سلسلے میں حتمی طور پر کسی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔

پشاور سے نامہ نگار اظہار اللہ کے مطابق پی ٹی آئی خیبر پختونخوا کے صدر پرویز خٹک نے منگل کو بتایا تھا کہ لانگ مارچ 10 سے 14 دنوں میں اسلام آباد پہنچے گا اور مارچ کے راولپنڈی پہنچنے سے پہلے ہی کارکنان ٹیکسلا کے قریب موٹروے کے کیمپ میں پہنچیں گے۔

پشاور، مردان اور صوابی سے پی ٹی آئی کے کئی کارکنان پہلے سے دھرنا کیمپ میں پہنچ گئے ہیں۔

پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم کے رکن اکرام کھٹانہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ لانگ مارچ سے پہلے تمام اضلاع سے 100 کارکنان پر مشتمل قافلہ موٹروے کیمپ پر جائے گا اور یہ سلسلہ لانگ مارچ کے راولپنڈی پہنچنے تک جاری رہے گا۔

انہوں نے بتایا کہ کارکنان لانگ مارچ پہنچنے تک موٹروے کو بلاک کریں گے اور وہاں پر احتجاجی مظاہرے جاری رکھیں گے۔

دوسری جانب کراچی سے نامہ نگار امرگُرڑو کے مطابق تحریک انصاف کے لانگ مارچ پر حملے کے بعد جس طرح لاہور یا پشاور میں پی ٹی آئی کارکنان کی جانب سے احتجاج کیا گیا، اس طرح کا کوئی احتجاج سندھ میں کہیں بھی دکھائی نہیں دیا۔

صرف صوبائی دارالحکومت کراچی میں حملے کے دوسرے دن شام میں احتجاج کیا گیا تھا۔

اس سلسلے میں رابطہ کرنے پر سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما حلیم عادل شیخ کے ترجمان صدام کنبھر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں تصدیق کی کہ عمران خان پر حملے کے بعد صوبے میں کہیں اور احتجاج نہیں ہوا، صرف کراچی میں احتجاج کیا گیا، مگر اس میں کارکنان کی زیادہ تعداد نے شرکت نہیں کی۔

اسلام آباد مارچ میں شرکت کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر صدام کنبھر نے بتایا کہ ’جمعرات سے پنجاب میں اسد عمر اور شاہ محمود قریشی کی سربراہی میں دو ریلیاں نکلیں گی جبکہ خیبرپختونخوا میں تین مقامات سے ریلی نکلے گی اور اسلام آباد پہنچنے پر عمران خان بھی اس میں شرکت کریں گے۔ تب ہی سندھ کے کارکنان جائیں گے اور یہ اسی وقت بتایا جاسکتا ہے کہ کارکنان کی تعداد کتنی ہوگی۔‘

بلوچستان میں عمران خان کی نااہلی اور لانگ مارچ کے دوران فائرنگ کے بعد پی ٹی آئی کی جانب سے احتجاج تو کیا گیا لیکن اس کی شدت کم تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ سوال جب پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما اور سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری سے پوچھا گیا کہ کیا جماعت دھڑے بندی اور اختلافات کا شکار ہے؟ تو انہوں نے اس تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ پاکستان کی بڑی جماعت ہیں اور سب متحد ہیں۔‘

قاسم سوری نے انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ نگار ہزار خان بلوچ سے گفتگو میں بتایا کہ بلوچستان میں ان کی جماعت نے قوم پرست اور مذہبی جماعتوں کے مقابلے میں ’زیادہ تعداد میں لوگوں کو جمع کر کے احتجاج کیا۔‘

بقول قاسم سوری: ’ہم سب عمران خان کے حقیقی آزادی مارچ کے ساتھ ہیں۔‘

لانگ مارچ میں کارکنوں کی کم تعداد کے حوالے سے سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ پارٹی چیئرمین عمران خان کے ’مخصوص بیانیے‘ کی وجہ سے کارکن ساتھ نہیں دے رہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’بے شک پی ٹی آئی ملک کی پاپولر جماعت اور عمران خان مشہور رہنما ہیں مگر انہوں نے عسکری قیادت سے متعلق جو بیانیہ اپنایا ہے، کارکن اور حمایتی تو کیا کئی پارٹی لیڈر بھی اس بیانیے کا ساتھ دیتے دکھائی نہیں دے رہے۔‘

سلمان غنی کے بقول: ’جس طرح عمران خان نے وزیر آباد واقعے پر فوجی افسر کا نام ایف آئی آر میں درج کروانے کی کوشش کی، اس سے ان کی پوزیشن سیاسی طور پر مزید خراب ہوئی کیونکہ یہ تاثر پایا گیا کہ ان کی حمایت سے بننے والی پنجاب حکومت بھی مقدمہ درج نہیں کر سکی اور سپریم کورٹ کو احکامات دینا پڑے۔‘

ان کے خیال میں: ’جب اسٹیبلشمنٹ خود کو سیاست سے دور کر چکی ہے تو انہیں دوبارہ الزامات کی زد میں لانا بہتر سیاسی فیصلہ نہیں ہے کیونکہ جس سیاسی قیادت نے ایسا بیانیہ اپنایا اسے پذیرائی نہیں مل سکی۔

’یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے 20 لاکھ افراد کا دعویٰ کیا تھا مگر ابھی تک 20 ہزار لوگ بھی کسی شہر میں جمع نہیں ہوسکے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان