پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ کا آغاز ہو چکا ہے، جو پارٹی کی جانب سے اعلان کیے گئے شیڈول کے مطابق چار نومبر کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پہنچے گا۔
حکومت لانگ مارچ سے نمٹنے اور امن و امان کی صورت حال کو برقرار رکھنے کے لیے انتظامات کو بھی حتمی شکل دے رہی ہے۔
لانگ مارچوں کی حالیہ تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو کوئی لانگ مارچ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا۔ پاکستان تحریک انصاف کے 2014 کا دھرنا ہو یا ماضی قریب میں مولانا فضل الرحمان اور بلاول بھٹو زرداری کے لانگ مارچ، کسی مارچ سے نہ تو حکومت کو ہٹایا جا سکا اور نہ مطالبات تسلیم ہوئے۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ لانگ مارچوں کی وجہ سے حکومت وقت مذاکرات کی ٹیبل پر آنے اور لچک ظاہر کرنے پر مجبور ہوگئی۔
ملک کی حالیہ سیاسی صورت حال اور چند پریس کانفرنسوں کے تناظر میں پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ سے متعلق کئی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا مقتدر حلقوں کی سپورٹ کے بغیر لانگ مارچ کامیاب ہوگا؟
یہ سوال بھی لوگوں کے ذہنوں میں گردش کر رہے ہیں کہ عمران خان لانگ مارچ کے ذریعے قبل از وقت انتخابات چاہتے ہیں یا آرمی چیف کی تقرری؟ اور اگر لانگ مارچ اسلام آباد پہنچ بھی جاتا ہے تو آخر عمران خان کو کیا کامیابی حاصل ہو سکے گی؟ خصوصاً یہ سوال کہ کیا حالیہ سیلاب کی صورت حال میں قبل از وقت انتخابات ممکن ہیں؟
سوالات کے ساتھ ساتھ اس حوالے سے مختلف آراء بھی سامنے آ رہی ہیں۔
عمران خان نے اپنے ایک انٹرویو میں موجودہ حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ حکومت نئے آرمی چیف کا تقرر نہ کرے بلکہ معاملے کو موخر کر دے، لیکن بعد میں انہوں نے کہا کہ انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آرمی چیف کون ہوگا۔
عمران خان نے پانچ اکتوبر 2022 کو لاہور میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ ’آرمی چیف کوئی بھی آ جائے، مجھے فرق نہیں پڑتا لیکن آرمی چیف کا تقرر میرٹ پر ہونا چاہیے اور یہ (موجودہ حکومت) مرضی کا آرمی چیف لانا چاہتے ہیں۔‘
جمعرات کی شب بھی ایک نجی نیوز چینل کو دیے گئے انٹرویو میں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ ’اپنی مرضی کا آرمی چیف ان لوگوں کو چاہیے جنہیں اپنی مرضی کا جج، نیب سربراہ، انسپکٹر جنرل اور ایف آئی اے کا سربراہ لگانا ہوتا ہے تاکہ ان کی کرپشن چھپائی جاسکے۔ نواز شریف اور آصف زرداری کو کبھی بھی آرمی چیف کی تقرری نہیں چاہیے کیونکہ یہ دونوں مجرم ہیں، جو بھی انتخاب کرے میرٹ پر کرے۔ میرا کوئی پسندیدہ نہیں ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’صدر عارف علوی کے ذریعے مذاکرات ہونے کا مقصد صاف شفاف الیکشن کروانا تھا۔‘
انٹرویو کے دوران جب ان سے 2014 میں اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اقتدار میں آنے سے متعلق سوال کیا گیا تو عمران خان نے کہا کہ انہیں ’نہ اس وقت اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت تھی اور نہ آج ہے۔‘
پی ٹی آئی چیئرمین کے بیانات کے برعکس سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا کہ عمران خان کا لانگ مارچ کسی انقلاب کے لیے نہیں بلکہ اپنی مرضی کا آرمی چیف لگانے کے لیے ہے۔
انہوں نے کہا: ’اس (عمران خان) کا انقلاب، چار سالہ حکمرانی میں عوام دیکھ چکے ہیں۔ دوسروں کو چور کہنے والا عمران خان خود فارن فنڈنگ، توشہ خانہ اور 50 ارب کی ڈکیتی کے ناقابل تردید ثبوتوں کے ساتھ تاریخ کا سب سے بڑا چور ثابت ہوا۔‘
عمران خان کا لانگ مارچ کسی انقلاب کیلئے نہیں بلکہ اپنی مرضی کا آرمی چیف لگانے کیلئے ہے۔اسکا انقلاب اسکی 4سالہ حکمرانی میں عوام دیکھ چکی ہے۔دوسروں کو چور کہنے والا عمران خان خود فارن فنڈنگ،توشہ خانہ اور 50 ارب کی ڈکیتی کے ناقابل تردید ثبوتوں کے ساتھ تاریخ کا سب سے بڑا چور ثابت ہوا
— Nawaz Sharif (@NawazSharifMNS) October 26, 2022
اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے صحافی حامد میر سے گفتگو کی، جن کا کہنا تھا کہ ’عمران خان کا دعویٰ ہے کہ وہ حقیقی آزادی کے لیے مارچ کر رہے ہیں لیکن حقیقت میں وہ صرف نئے انتخابات کے لیے مارچ کر رہے ہیں۔‘
حامد میر کا مزید کہنا تھا کہ ’آئندہ جب بھی انتخابات ہوئے ان میں عمران خان کاحصہ لینا بہت مشکل ہوگا کیونکہ ان پر نا اہلی کی تلوار لٹک رہی ہے۔‘
صحافی وسعت اللہ خان بھی سمجھتے ہیں کہ عمران خان صرف نئے انتخابات کے لیے ہی مارچ کر رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’عمران خان اس وقت سمجھتے ہیں کہ جو لہر آئی ہوئی ہے، وہ اس سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتے ہیں، اس لیے وہ انتخابات چاہتے ہیں تاکہ اس کے بعد جیسا پاکستان وہ دیکھنا چاہتے ہیں اسی بنیاد پر وہ ڈیزائن کرسکیں۔‘
بقول وسعت اللہ خان: ’اس لیے عمران خان نے آخری پتہ چلا دیا ہے۔ اس کے بعد تو فوری طور پر ان کے پاس کوئی پتہ نہیں ہے۔ اس وقت جو صورت حال ہے پہلے کبھی نہیں رہی۔ ملک میں باقی سیاست دان دفاعی پوزیشن میں لگ رہے ہیں، اس لہر میں تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ پہلا شخص ہے جو منہ پھٹ بھی ہے اور کوئی آسرا بھی نہیں کرتا۔‘
بقول وسعت اللہ خان: ’پہلے اسٹیبلشمنٹ کو اتحادی مل جاتے تھے لیکن پہلی مرتبہ لگ رہا ہے کہ سب زبانی طور پر تو ان کے حمایتی ہیں لیکن اسٹیبلشمنٹ سیاسی طور پر تنہا ہے۔ اس وقت ان کو سیاسی ساتھی ملنے کے لالے پڑے ہوئے ہیں، جب فیصل واوڈا پر اعتماد ہونے لگے، یعنی لیول یہ ہو جائے تو اندازہ لگا لیں کہ ان کے پاس لوگ نہیں ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر انتخابات ہوتے ہیں اور عمران خان آ بھی جاتے ہیں تو عمران خان کی اپنی ہی غلطیوں کی وجہ سے ان کی شہرت میں کمی آئے گی۔ باقی لوگوں میں تو اتنی صلاحیت نہیں کہ ان کا راستہ روکا جا سکے۔ صورت حال کچھ بھی ہو، مجھے تو کسی بھی طرح اچھی توقعات نہیں ہیں۔‘
پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے آغاز سے قبل 26 اکتوبر کی شب اپنی ایک دھماکہ خیز پریس کانفرنس میں پی ٹی آئی کے رہنما فیصل واوڈا نے کہا تھا کہ لانگ مارچ میں انہیں ’جنازے ہی جنازے‘ نظر آرہے ہیں، ساتھ ہی انہوں نے صحافی ارشد شریف کے مبینہ قتل سے متعلق بھی متعدد ’انکشافات‘ کیے تھے، جس کے بعد پاکستان تحریک انصاف انہیں شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے ان کی پارٹی رکنیت معطل کردی ہے۔
تاہم فیصل واوڈا نے اس نوٹیفیکیشن پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا: ’میں نے اپنی پارٹی کو ایک سچا مشورہ دیا ہے، پہلے بھی کہ چکا ہوں اور آج بھی کہہ رہا ہوں کہ کچھ سازشی ہمارے پر امن مارچ میں معصوم لوگوں کو بلی کا بکرا بنا سکتے ہیں، اس میں پارٹی پالیسی کے خلاف کیا ہے؟‘
سابق گورنر سندھ اور پی ٹی آئی کے رہنما عمران اسماعیل نے اس معاملے پر ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا تھا: ’فیصل واوڈا نہ جانے کس کی ایما پر یہ سب بول رہے ہیں۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آج کی پریس کانفرنس کا اصل مقصد کیا تھا؟ ہمارا لانگ مارچ پر امن ہے۔ لاشوں کی سیاست عمران خان کا شیوہ نہیں۔ ارشد شریف پر سیاست نہ کی جائے۔ لانگ مارچ پر امن ہوگا اسے خراب کرنے کی سازش ناکام ہوگی۔‘
27 اکتوبر کو راولپنڈی میں پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات (آئی ایس پی آر) کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار اور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے بھی ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں عمران خان کی حکومت کے دوران ملکی اداروں پر لگائے گئے الزامات کی وضاحت پیش کی تھی۔