پاکستانی سیاست میں اس وقت سب سے اہم سیاسی سوال نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا ہے اور اس تعیناتی کا ذمہ دار ملک کا وزیراعظم ہوتا ہے جن کی ’ایڈوائس‘ پر صدر پاکستان تعیناتی کا حکم جاری کرتے ہیں۔
دیکھنے میں تو یہ معمول کی تعیناتی ہے مگر اس تعیناتی کے پاکستانی دفاعی و خارجہ امور اور سیاست پر دور رس نتائج ہوتے ہیں اسی لیے اگر اسے پاکستان کی سب سے اہم تعیناتی کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔
آرمی چیف کی تعیناتی وزیراعظم کی صوابدید ہے اور وزیراعظم ایک سیاسی عہدہ ہے اور اس عہدے کی اہمیت کے پیش نظر سیاسی جماعتیں اس اہم عہدے کی تعیناتی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ موجودہ تین بڑی سیاسی جماعتوں میں سے کس جماعت کو کتنی بار یہ موقع ملا اور کس سیاسی جماعت نے کتنی بار یہ تعیناتی کی۔
اس وقت ملک میں تین بڑی سیاسی جماعتیں موجود ہیں۔ پاکستان کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو سب سے زیادہ آرمی چیف مسلم لیگ ن نے تعینات کیے ہیں۔
مسلم لیگ ن نے اب تک پانچ آرمی چیف تعینات کیے ہیں جبکہ پیپلز پارٹی نے دو اور پاکستان تحریک انصاف نے نیا آرمی چیف تعینات کرنے کے بجائے مدت ملازمت میں توسیع کو ترجیح دی تھی۔
پیپلز پارٹی کو سپہ سالار تعینات کرنے کے کتنے مواقع ملے؟
تاریخ کے مطابق پیپلز پارٹی کے حصے میں چار ادوار آئے جس میں آرمی چیف تعینات کرنے کے مواقع تین بار آئے۔
1976 میں اُس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ضیا الحق کو آرمی چیف تعینات کیا تو اگلے ہی برس جولائی 1977 میں آرمی چیف نے منتخب حکومت کا تختہ اُلٹ دیا اور مارشل لگا کر دس سال اقتدار میں رہے۔
اُن کے بعد جنرل مرزا اسلم بیگ آرمی چیف بنے جو جنرل ضیا الحق کا طیارہ تباہ ہونے کے بعد صدر غلام اسحاق کی جانب سے تعینات کیے گئے تھے۔ 1988 میں انتخابات ہوئے تو پیپلز پارٹی سے بینظیر بھٹو وزیراعظم بنیں۔
بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت 20 مہینے کے بعد تحریک عدم اعتماد کے باعث ختم ہو گئی اور آرمی چیف تعینات کرنے کا موقع نہ مل سکا۔
اکتوبر 1993 سے نومبر 1996 تک دوسری بار اقتدار ملنے پر جنوری 1996 میں جنرل جہانگیر کرامت کو آرمی چیف تعینات کیا گیا۔
پیپلز پارٹی کا چوتھا دور 2008 - 2013 تک تھا جس میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو جولائی 2010 میں آرمی تعینات کرنے کا موقع ملا۔ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اپنی مدت کے تین سال پورے کر چکے تھے لیکن پیپلز پارٹی نے اُس وقت نیا چیف تعینات کرنے کے بجائے انہیں توسیع دینے کا فیصلہ کیا۔
پاکستان مسلم لیگ ن نے کتنے آرمی چیف تعینات کیے؟
پاکستان مسلم لیگ ن سے میاں محمد نواز شریف بینظیر کی پہلی حکومت گرنے کے بعد 1990 - 1993 تک پاکستان کے وزیراعظم رہے۔
اس دوران انہوں نے جنرل اسلم بیگ کی ریٹائرمنٹ کے بعد 1991 میں جنرل آصف نواز کو آرمی چیف تعینات کیا۔
1993 میں جنرل آصف نواز کی وفات کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے جنرل وحید کاکڑ کو آرمی چیف تعینات کیا۔
1997 میں دوسری بار وزیراعظم بننے کے بعد نواز شریف نے 1998 میں جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف تعینات کیا۔
تاہم اکتوبر 1999 میں نواز شریف نے جنرل پرویز مشرف کو عہدے سے ہٹا کر جنرل ضیا الدین بٹ کو آرمی چیف تعینات کیا تو جنرل پرویز مشرف نے ان کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ کا مارشل نافذ کر دیا۔
2013 میں تیسری بار وزیراعظم بننے کے بعد نواز شریف کو پھر آرمی چیف تعینات کرنے کا موقع ملا تو انہوں نے جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مدت ملازمت ختم ہونے کے بعد جنرل راحیل شریف کو آرمی چیف تعینات کیا۔
اسی پانچ سالہ دور حکومت میں 2016 میں جنرل راحیل شریف کے تین سال بطور آرمی چیف مدت پوری ہونے پر نواز شریف نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو آرمی چیف تعینات کیا۔
اور اب 2022 میں اتحادی حکومت میں وزارت عظمیٰ پاکستان مسلم لیگ ن کے پاس ہونے کی وجہ سے ایک بار پھر آرمی چیف تعینات کرنے کا چھٹا موقع پاکستان مسلم لیگ ن کے پاس ہے لیکن وزیراعظم اب شہباز شریف ہیں۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ شہباز شریف یہ تعیناتی اپنی اتحادی جماعتوں سے مشاورت کے ساتھ کریں گے۔
پارلیمانی امور پر رپورٹنگ کرنے والے صحافی خالد محمود نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’منتخب حکومتوں میں سب سے زیادہ آرمی چیف نواز شریف نے تعینات کیے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اب تک کی تاریخ کے مطابق نواز شریف آرمی چیف کو توسیع نہیں دیتے بلکہ ہر بار نیا چیف ہی مقرر کرتے ہیں۔ نواز شریف نے پانچ بار آرمی چیف تعینات کیے، لیکن ماضی میں انہوں نے ہمیشہ سنیارٹی کو نظرانداز کیا ہے۔‘
کیا پاکستان تحریک انصاف کو آرمی چیف تعینات کرنے کا موقع ملا؟
2018 کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف حکومت میں آئی تونومبر 2019 میں ان کی حکومت کو آرمی چیف کی تعیناتی کا ایک موقع ملا۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت 29 نومبر 2019 کو مکمل ہو رہی تھی۔ اس وقت سنیارٹی فہرست میں لیفٹیننٹ جنرل سرفراز ستار، لیفٹینیٹ جنرل ندیم رضا، لیفٹینیٹ جنرل ہمایوں عزیز، لیفٹینیٹ جنرل نعیم اشرف اور لیفٹینیٹ جنرل شیر افگن تھے۔
لیکن وزیراعظم عمران خان نے اس فہرست سے نیا آرمی چیف منتخب کرنے کے بجائے موجود آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو تین سال کی توسیع دے دی۔
فہرست میں موجود دوسرے نمبر پر جنرل ندیم رضا کو جنرل زبیر حیات کی ریٹائرمنٹ کے بعد 27 نومبر 2019 کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف تعینات کر دیا گیا۔
مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال نے اس حوالے سے جیو ٹی وی کے پروگرام میں کہا کہ ’عمران خان کو ایک موقع ملا تھا اور اُس میں بھی انہوں نے پچھلی حکومت کے منتخب کردہ آرمی چیف کو توسیع دے دی۔‘
احسن اقبال نے مزید کہا کہ ’سیاسی جماعتیں بیشک آرمی چیف کا چناؤ کرتی ہیں لیکن آرمی چیف کسی سیاسی جماعت کا نہیں ہوتا بلکہ وہ ادارے کا ہوتا ہے۔‘
75 سالہ تاریخ میں منتخب حکومتوں کی کتنی مدت رہی؟
75 سالوں میں منتخب حکومتوں کو 40 سال کا عرصہ ملا جس میں آرمی چیف منتخب کیے تو کچھ منتخب آرمی چیفس نے مارشل لا لگا دیے۔
1947 کے بعد سے اب تک پاکستان میں 35 سالوں کی مدت کے ساتھ تین مارشل لا لگ چکے ہیں جس کی وجہ سے ماضی میں منتخب سیاسی حکومتیں بھی مدت پوری نہیں کر سکیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پہلی مرتبہ منتخب حکومت کی مدت 2008 سے 2013 میں مکمل ہوئی جو پاکستان کی اُس وقت کی 65 سالہ تاریخ میں سنگ میل تھا۔ 2008 سے اب تک تین مسلسل منتخب حکومتیں اقتدار میں ہیں۔ لیکن وزرائے اعظم اپنی پانچ سالہ مدت مکمل نہ کر سکے۔
قیام پاکستان کے بعد جب پہلے مقامی آرمی چیف کا انتخاب کیا گیا تو پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے 1951 میں جنرل ایوب کو آرمی چیف تعینات کیا۔
اس کے بعد ملکی نظام مارشل لا اور صدارتی نظام میں ڈولتا رہا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور 1973 کے آئین کے بعد باضابطہ وزیراعظم پاکستان کو اہم تعیناتیوں کے صوابدیدی اختیارات دیے گئے۔
کیا ماضی میں آرمی چیف کی تعیناتی میں سنیارٹی مدنظر رکھی گئی؟
پاکستان کی تاریخ میں 14 میں سے صرف چار آرمی چیف سینیئر ترین جنرلز تھے جن میں جنرل ٹکا خان، جنرل مرزا اسلم بیگ، جنرل جہانگیر کرامت اور جنرل اشفاق پرویز کیانی سنیارٹی فہرست میں پہلے نمبر تھے۔
قیام پاکستان کے بعد پہلے دو برٹش آرمی سربراہان کے بعد 1951 میں پاکستان آرمی کے سربراہ جنرل ایوب تعینات ہوئے، جنرل ایوب سنیارٹی فہرست میں تیسرے نمبر پر تھے۔
جنرل محمد موسی 1958 میں دوسرے سربراہ بنے جو سنیارٹی فہرست میں چوتھے نمبر پر تھے۔
1966 میں جنرل یحیی آرمی چیف بنے جو سنیارٹی میں تیسرے نمبر پر تھے۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد 20 دسمبر 1971 کو جنرل گُل حسن کو آرمی چیف تعینات کیا گیا جو سنیارٹی میں دوسرے نمبر پر تھے اور انہوں نے جنرل ٹکا خان کو ’سپر سیڈ‘ کیا تھا لیکن تین ماہ بعد ہی 1972 میں جنرل ٹکا خان پاکستان فوج کے سربراہ تعینات ہوئے جو سنیارٹی میں پہلے نمبر پر تھے۔
1976 میں جنرل ضیاالحق کو وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے آرمی چیف تعینات کیا، جنرل ضیا سنیارٹی فہرست میں آٹھویں نمبر پر تھے۔
جنرل ضیا کے بعد 1988 میں جنرل مرزا اسلم بیگ آرمی چیف بنے اور وہ سنیارٹی فہرست میں پہلے نمبر پرتھے۔
1991 میں جنرل آصف نواز کو آرمی چیف تعینات کیا گیا جو سنیارٹی فہرست میں دوسرے نمبر پر تھے۔
1993 میں جنرل آصف نواز کی وفات کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے سنیارٹی فہرست میں پانچویں نمبر پر جنرل وحید کاکڑ کو آرمی چیف تعینات کیا۔
1996 میں جنرل جہانگیر کرامت آرمی چیف تعینات کیے گئے جو سنیارٹی فہرست میں پہلے نمبر پہ تھے۔
1998 میں جنرل جہانگیر کرامت کے استعفے کے بعد جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف تعینات کیا گیا جو سنیارٹی فہرست میں تیسرے نمبر پر تھے۔
جنرل مشرف کے بعد جنرل اشفاق پرویز کیانی نے 2007 میں پاکستان آرمی کی کمان سنبھالی اور وہ سنیارٹی فہرست میں پہلے نمبر پہ تھے۔
اپنی تعیناتی کے وقت جنرل راحیل شریف سنیارٹی میں تیسرے نمبر جبکہ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سنیارٹی فہرست میں چوتھے نمبر پر تھے۔