عدالتی حکم عدولی نہیں کی، ایجنسیوں کی رپورٹیں یکطرفہ: عمران

توہینِ عدالت کیس میں تحریری جواب میں عمران خان نے کہا ہے کہ احتجاج کے دوران جیمرز کی وجہ سے فون کے ذریعے رابطہ ناممکن تھا، اور نادانستہ طور پر اٹھائے گئے قدم پر افسوس ہے۔

پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان 29 اکتوبر 2022 کو لاہور میں  (اے ایف پی)

سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے توہین عدالت کیس میں اپنا جواب جمع کراتے ہوئے استدعا کی ہے کہ اداروں کی رپورٹیں یکطرفہ ہیں، جان بوجھ کر سپریم کورٹ کی حکم عدولی نہیں کی، کارروائی ختم کی جائے۔
توہین عدالت کیس میں عمران خان کی جانب سے سپریم کورٹ میں بدھ کو تفصیلی جواب جمع کروایا گیا جس میں موقف اپنایا گیا ہے کہ انہوں نے جانتے بوجھتے سپریم کورٹ کی حکم عدولی نہیں کی گئی اور کہا ہے کہ انہیں 25 مئی کی شام کو عدالتی حکم کے بارے میں آگاہ نہیں کیا گیا تھا۔ 
اپنے جواب میں چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ احتجاج کے دوران جیمرز کی وجہ سے فون کی ذریعے رابطہ ناممکن تھا، نادانستہ طور پر اٹھائے گئے قدم پر افسوس ہے، اس بات کی تردید کرتا ہوں کہ اداروں کی رپورٹیں عدالتی حکم عدولی ثابت کرتی ہیں۔

25 مئی کو سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کو اسلام آباد کے ایچ نائن اور جی نائن کے درمیان پشاور موڑ کے قریب ’آزادی مارچ‘ کے انعقاد سے روک دیا تھا، تاہم عمران خان اور ان کے حامیوں نے عدالتی احکامات کی مبینہ خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈی چوک کا رخ کیا تھا۔
جواب میں کہا گیا ہے کہ اداروں کی رپورٹیں حقائق کے خلاف ہیں، ایجنسیوں کی رپورٹس یکطرفہ ہیں نیز عدالت عظمیٰ سے استدعا کی گئی ہے کہ توہین عدالت کی کارروائی ختم کی جائے۔
’میرے لیے عدلیہ کا بڑا احترام ہے۔ کبھی بھی عدلیہ یا دیگر قومی اداروں کے خلاف مہم نہیں چلائی۔ عدالت کی توہین کرنے کا کبھی سوچ بھی نہیں سکتا۔‘
اپنے جواب میں چیئرمین تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ چھچھ انٹر چینج پر ان کی مکمل تقریر عدالت میں نہیں چلائی گئی۔ ’کارکنوں سے ملنے والی معلومات پر ان کو ڈی چوک پہنچنے کی کال دی۔ کارکنوں نے میڈیا پر خبر سن کر بتایا کہ سپریم کورٹ نے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم دے دیا ہے۔‘
عمران خان کے وکیل بابر اعوان نے بھی اپنے جواب میں توہین عدالت کی کارروائی سے اپنا نام نکالنے کی استدعا کر دی ہے۔ 
جواب میں بابر اعوان کی جانب سے مؤقف اپنایا گیا ہے کہ 25 مئی کو ’ایڈووکیٹ فیصل فرید نے مجھے عدالتی نوٹس کا بتایا، بطور وکیل 40 سال عدلیہ کی معاونت میں گزارے، اسد عمر نے رابطہ پر زبانی ہدایات دی، اسد عمر کی زبانی ہدایات پر سپریم کورٹ کو یقین دہانی کرائی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’عدالت کو ارادی یا غیر ارادی طور پر گمراہ نہیں کیا، اچھی نیت سے عدالت کی معاونت کی، عدالتی حکم کے مطابق پی ٹی آئی قیادت سے میری اور فیصل چوہدری کی ملاقات کا انتظام حکومت کی ذمہ داری تھی۔‘
’حکومت نے عدالتی حکم پر عمل نہیں کیا، 26 مئی کو عدالت کو حکومت کی طرف ملاقات کے انتظامات نہ کرنے سے متعلق آگاہ کیا، عدالت نے 26 مئی کو قرار دیا لانگ مارچ کے ختم ہو چکا ہے۔‘
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ درخواست پر سماعت کر رہا ہے، بینچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی شامل ہیں۔
گذشتہ سماعت پر سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم سے توہین عدالت کیس میں جواب طلب کیا تھا، اس موقعے پر سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے تھے کہ فی الحال توہین عدالت کا یا شوکاز نوٹس جاری نہیں کر رہے، عمران خان کا جواب آ جائے، پھر جائزہ لیں گے کہ توہین عدالت ہوئی یا نہیں۔
عدالت عظمیٰ نے توہین عدالت کا نوٹس جاری کرنے کی حکومتی استدعا مسترد کر دی تھی، اس موقع پر چیف جسٹسں نے کہا تھا کہ عمران خان کے جواب کا جائزہ لے کر طے کریں گے کہ توہین عدالت کا نوٹس جاری کرنا ہے نہیں۔
اس دوران بینچ کے رکن جسٹس یحییٰ آفریدی نے بینچ کے دیگر اراکین سے اختلاف کیا تھا تھا، چار ججز نے سابق وزیر اعظم سے جواب طلب کیا تھا جب کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے عمران خان کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان