کراچی میں دسویں یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ (یو بی ایل) لٹریری اینڈ آرٹس ایوارڈ کی جمعے کو ہونے والی تقریب میں کچھ نئے شعبوں میں بھی ایوارڈ دیے گئے۔ اسی نسبت سے تقریب کے نام میں لٹریری کے ساتھ آرٹس یعنی ادب کے ساتھ فنون کا لفظ بھی جوڑ دیا گیا۔
منتظمین کے مطابق اس مرتبہ بھی ایوارڈز کی کیٹیگریز کے لیے درجنوں درخواستیں موصول ہوئیں۔
حتمی نامزدگی کے لیے ان میں سے پھر تین کا انتخاب کیا گیا اور پھر ایک کو ایوارڈ سے نوازا گیا۔
رواں برس اردو کیٹیگریز کے لیے جیوری اراکین میں ڈاکٹر اصغر ندیم سید، ڈاکٹر ارفع سیدہ زہرا، ڈاکٹر انوار احمد، کشور ناہید اور ڈاکٹر ناصر عباس نیئر شامل تھے جبکہ انگریزی کے لیے جیوری غازی صلاح الدین اور منیزہ شمسی پر مشتمل تھی۔
اردو فکشن میں اس مرتبہ محمد احمد قاضی کی کتاب ’کنواں‘ کو بہترین قرار دیتے ہوئے ایوارڈ دیا گیا، جبکہ نان فکشن اردو میں یہ ایوارڈ احمد سلیم کی ’جب آنکھ سے نا ٹپکا‘ کے حصے میں آیا۔
اردو شاعری کے زمرے میں صابر ظفر کی کتاب ’جمال آب سے وصال‘ کو رواں برس ایوارڈ کا حقدار قرار دیا گیا۔
اردو زبان کے آن لائن ادب کے شعبے میں قاضی علی ابوالحسن کی کتاب ’ذائقوں سے بھرے رنگ‘ کو چنا گیا۔
بچوں کے ادب کے شعبے میں تسنیم جعفری کے ناول’ زندگی خوبصورت ہے‘، اور شعیب مرزا کی کہانیوں پر مبنی کتاب ’ببلو اور چندا ماما‘ کو مشترکہ ایوارڈ دیا گیا۔
اردو زبان میں ترجمے کے شعبے میں سعید نقوی کے انگریزی ناول کے ترجمے ’دو نیم اپریل‘ کو بہترین کاوش قرار دیا گیا۔
اس مرتبہ بہترین اردو ڈراما سکرپٹ کی بھی ایک کیٹیگری شامل کی گئی تھی، جس کا اعزاز معروف مصنف فصیح باری خان کو ان کے ڈرامے ’گھسی پٹی محبت‘ پر دیا گیا جو روایتی ڈراموں سے کافی مختلف ڈراما تھا۔
اردو زبان کے ڈبیو مصنف یا پہلی کتاب کے لیے عرفان شہود کو ان کی نظموں پر مشتل تحریر ’بے سمتی کے دن ‘ پر ایوارڈ دیا گیا۔
علاقائی زبانوں کے شعبے میں خالد کنبھار کی سندھی زبان میں لکھی گئی ’خانہ بدوش قبیلہ‘ کو ایوارڈ سے نوازا گیا۔ علاقائی زبانوں کے شعبے میں پہلی مرتبہ ایوارڈ دیا گیا ہے۔
انگریزی زبان کے لیے دیے گئے اعزازات میں نان فکشن کے شعبے میں افتخار ملک کی کتاب ’دی سلک روڈ اینڈ بیونڈ’‘ کے حصے میں آیا۔
بچوں کے لیے لکھے انگریزی ادب میں ثمن شمسی کی ’وئیر دا ریورز میٹ‘ کو بہترین تخلیق قرار دیا گیا، جبکہ پہلی کتاب یعنی ڈبیو انگریزی کتاب کے لیے ایوارڈ عثمان حنیف کی ’دی ورڈکٹ‘ کو دیا گیا۔
پاکستانی نژاد امریکی مصنف مرحوم ذوالفقار گھوس کو بھی بعد از مرگ ’ایکسیلنس ان ورلڈ لٹریچر‘ انگریزی کی کیٹیگری میں اعترافی ایوارڈ دیا گیا۔
اس تقریب کا آخری ایوارڈ ’لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ‘ معروف مصنف، ڈراما نویس انور مقصود کو ان کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں پیش کیا گیا۔
تقریب کے احوال کی بات کریں تو ملک میں ہونے والے دیگر ایوارڈ کی نسبت یہ بہت جلد شروع ہوئی تقریباً سوا آٹھ بجے شروع ہوگئی البتہ ختم ہوتے ہوتے 11 بج ہی گئے۔
تقریب میں ادب کم اور فن زیادہ نظر آیا۔ اس شام کی سب سے پُر لطف بات انور مقصود کے اپنے مخصوص انداز کے طنزیہ جملے ہیں جو موجودہ سیاسی حالات پر مبنی تھے۔
کشور ناہید اور ارفع سیدہ زہرا نے بھی محفل کو اپنے جملوں سے کشتِ زعفران بنایا۔ ایران میں حجاب کے معاملے پر قتل ہونے والی مہسا امینی کے لیے کشور ناہید نے خصوصی نظم بھی پڑھی۔
اس تقریب کی میزبانی کے فرائض یاسرہ رضوی اور خالد ملک نے ادا کیے مگر تقریب کی مناسبت سے دونوں ہی غیر محتاط اور تیاری کے بغیر آئے ہوئے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ابتدا ہی میں ایک کمسِن بچی توصل شاہ نے میؔر و فرازؔ سمیت چند نامور شعرا کے اشعار پڑھ کر محفل کو گرمایا اور سچ یہی ہے کہ یہ شام کا سب سے اچھا ادبی مظاہرہ تھا۔
اس طرح کی تقریبات میں شستہ زبان چاہیے ہوتی ہے لیکن دونوں میزبان اس میں ناکام رہے۔ تلفظ کے معاملے پر دونوں میزبانوں سے تو کشور ناہید نے کہہ دیا کہ آپ دونوں کو اردو ہی نہیں آتی۔
ایوارڈ جیتنے والے مصنفین اور ان کی کتاب کا تعارف پیش کیا جاتا تو اچھا تھا لیکن بس نام کا اعلان ہوا انہوں نے آکر ایوارڈ لے لیے اور بس۔
تقریب کے دوران چند خاکے اور فن پارے بھی پیش کیے گئے جن میں سب سے خاص کیف غزنوی کا کلاسیکل رقص تھا۔
تقریب کا اختتام عباس علی خان کی بہترین گلوکاری پر ہوا، جنہوں نے کئی مشہور اور معروف گیتوں کو بہترین انداز میں پیش کیا۔
پاکستان میں ادب کی صورتِ حال دگرگوں ہے، ایسے میں اس طرح کی تقاریب قابلِ ستائش ہیں مگر محسوس ہوتا ہے کہ پیشکش پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
(ایڈیٹنگ: ندا مجاہد حسین)