یہ تحریر آپ بلاگر کی زبانی یہاں سن بھی سکتے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف ’پی ٹی آئی‘ کا حکومت مخالف لانگ مارچ 28 اکتوبر سے جتنا خبروں میں ہے بظاہر اتنا سڑکوں پر نہیں ہے اور گذشتہ کچھ دنوں سے تو کچھ ’لاپتہ‘ سا بھی ہے، اس کی ایک بڑی وجہ زخمی ہونے کے سبب عمران خان کی ریلی میں عدم شرکت ہے۔
یہ پاکستان کی حالیہ تاریخ کا ایسا لانگ مارچ ہے جس کے آغاز سے قبل ہی اس کا بہت چرچا تھا کیوں کہ عمران خان کا دعویٰ رہا کہ اس میں شامل افراد کی تعداد اس قدر ہو گی کہ ماضی میں اس کے مثال نہیں ملے پائے گی۔ اس لیے حکومت اس نمٹنے سے تیاریاں میں لگ گئی لیکن جو بھی تیاری کی گئی اب تک اس کے استعمال کی نوبت ہی نہیں آئی۔
ابتدا میں بتایا گیا کہ مارچ کے شرکا لاہور سے اسلام آباد کا لگ بھگ 380 کلو میٹر کا فاصلہ چھ دن طے کر کے چار نومبر کو وفاقی دارالحکومت پہنچیں گے لیکن پھر بغیر کوئی ٹھوس وجہ بتائے تاریخ کو آگے بڑھایا جاتا رہا۔
تین نومبر کو وزیرآباد کے علاقے میں جب عمران خان کے کنیٹیر پر فائرنگ کی گئی اور 70 سالہ سابق وزیراعظم اس میں زخمی ہوئے تو مارچ کو روک دیا گیا اور یوں لگا کہ شاید اب جلد اس کے دوبارہ آغاز کے امکانات کم ہیں لیکن اس موقعے پر ایک اور سرپرائز آیا کہ ہسپتال ہی سے تحریک انصاف کے سربراہ نے یہ اعلان کر دیا کہ مارچ دوبارہ اسی مقام سے شروع ہو گا جہاں رکا تھا۔
یہ سفر 10 نومبر کو دوبارہ شروع ہوا، سابق وزیراعظم عمران خان اگرچہ ویڈیو لنک کے ذریعے تو مارچ میں شریک اپنے حامیوں سے خطاب کرتے رہے ہیں لیکن دور بیٹھے وہ ان کے جذبات کو بظاہر اس طرح نہیں گرما سکے جیسے وہ اُن کے درمیان موجود ہوتے ہوئے کرتے ہیں۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ تحریک انصاف کی مرکزی قیادت اور جماعت کے بعض متحرک کارکنوں کے علاوہ بہت سے لوگوں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ ’لانگ مارچ‘ ہے کہاں اور اس کے ساتھ کتنے لوگ سفر کر رہے ہیں۔ نہ ہی پی ٹی آئی کا متحرک شوشل میڈیا لانگ مارچ کی موجودہ تصاویر یا ویڈیوز شیئر کر رہا ہے۔
لیکن تحریک انصاف کی قیادت کی حکمت عملی قابل تعریف اس لیے ہے کہ انہوں نے لانگ مارچ کو شاہراہوں پر نہ سہی میڈیا میں زندہ رکھا اور حکومت کے لیے یہ مسلسل در سر بنا ہوا ہے۔
گذشتہ اختتام ہفتے لانگ مارچ میں ایک نئی جان ڈالنے کی کوشش کی گئی اور کہا گیا کہ اب یہ مارچ 26 نومبر کو راولپنڈی پہنچے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
راولپنڈی صوبہ پنجاب میں ہے اور پنجاب اس وقت عمران خان کا ہے تو وہاں تک پی ٹی آئی کو پہنچنے میں بظاہر کوئی مشکل پیش ہوتی نظر نہیں آتی، اب 26 اور اس کے بعد ہو گا کیا یہ ’سسپنس‘ برقرار ہے۔
وفاقی حکومت نے راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم پر واقع معروف فیض آباد انٹرچینج پر سینکڑوں کی تعداد میں اضافی پولیس نفری کی تعیناتی کر رکھی ہے اور یہ یہ اہلکار دن بھر دھوپ سینکتے رہتے ہیں اس کے علاوہ وہ کر بھی کیا سکتے ہیں کیوں مارچ تو اب بھی اسلام آباد سے کوسوں دور ہے۔
مارچ کے شرکا جتنے بھی ہوں لیکن یہ ’لانگ‘ بہت ہو گیا ہے۔
ماضی قریب میں سے زیادہ وقت کے لیے سڑکوں پر رہنے والا مارچ پیپلز پارٹی کا تھا جس کا آغاز اس جماعت کے چیئرمین بلاول بھٹو نے رواں سال 27 فروری کو کراچی سے کیا اور پھر نو مارچ کو اسلام آباد میں پہنچ کر اسی روز پرامن طور پر اختتام پذیر ہو گیا۔
اب تحریک انصاف کا مارچ ختم ہو جائے گا یا احتجاج کوئی نئی صورت اختیار کرے گا اس بارے میں ایک ہی شخص کچھ کہہ سکتا ہے اور وہ ہیں عمران خان!