چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ کو روکنے سے متعلق جمعیت علمائے اسلام ف کے سینیٹر کامران مرتضیٰ کی درخواست کو غیر موثر قرار دیتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ ایسی کوئی وجوہات موجود نہیں، جن کی بنیاد پر لانگ مارچ کو روکنے کا حکم دیا جائے۔
جے یو آئی ف کے سینیٹر کامران مرتضیٰ کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ وفاق اور صوبوں کو حکم دیا جائے کہ لانگ مارچ کے دوران عوام کے بنیادی حقوق متاثر نہ ہوں جبکہ وفاق اور صوبے یقینی بنائیں کہ تحریک انصاف کا دھرنا یا ریلی غیر معینہ مدت تک نہ ہو۔
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جمعرات کو پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے لانگ مارچ کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس اطہر من اللہ بھی شامل تھے۔
سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز پر درخواست گزار کامران مرتضیٰ نےکہا کہ ’تحریک انصاف ایک بار پھر لانگ مارچ اسلام آباد لا رہی ہے۔ عمران خان لانگ مارچ کو جہاد کا نام دے کر نوجوانوں سے حلف لے رہے ہیں۔ وہ لانگ مارچ کے ذریعے اداروں سے تصادم چاہتے ہیں۔‘
یہ دلائل سن کر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ’غیر معمولی حالات میں ہی عدلیہ مداخلت کر سکتی ہے۔ جب انتظامیہ کے پاس ایسی صورت حال کنٹرول کرنے کے وسیع اختیارات ہیں تو عدالت مداخلت کیوں کرے؟‘
کامران مرتضیٰ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’بات اب بہت آگے جا چکی ہے۔ پی ٹی آئی کے لانگ مارچ پر فائرنگ سے ایک شخص کی جان چلی گئی۔‘
جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’آپ نے درخواست میں ماضی کی خلاف ورزیوں کا ذکر کیا ہے۔ لانگ مارچ سیاسی مسئلہ ہے جس کا سیاسی حل ہو سکتا ہے۔ اس قسم کے مسائل میں مداخلت سے عدالت کے لیے عجیب صورت حال پیدا ہو جاتی ہے۔‘
جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید کہا کہ ’آپ نے اپنی درخواست میں ایک آڈیو کا ذکر کیا ہے۔ اس آڈیو میں ہتھیار لانے کا ذکر ہے۔ آڈیو سچ ہے یا غلط لیکن اس سے امن و امان کی صورت حال خراب ہو سکتی ہے۔ کیا 25 مئی کے لانگ مارچ کے لوگوں کے پاس اسلحہ تھا؟ احتجاج کا حق لامحدود نہیں، آئینی حدود سے مشروط ہے۔‘
چیف جسٹس پاکستان نے سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’آپ کہہ رہے ہیں کہ لانگ مارچ ابھی پنجاب کی حدود میں ہے۔ کیا آپ نے پنجاب حکومت سے رابطہ کیا ہے؟ اگر صوبے اور وفاق کا رابطہ منقطع ہو جائے تو کیا عدالت مداخلت کر سکتی ہے؟‘
دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے عدالت سے کہا کہ ملک میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے عدالت کی مداخلت چاہتے ہیں۔ ’وفاق نے پانچ نومبر کو بھی صوبہ پنجاب کو آرٹیکل 149 کے تحت خط لکھا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کرکے کہا کہ ’سمجھ سکتے ہیں کہ آپ موجودہ صورت حال سے پریشان ہیں۔ آج کی ہیڈلائن باجوڑ اور لکی مروت میں حملے کی تھی جس سے پوری قوم متاثر ہوتی ہے۔ آرٹیکل 149 کے تحت وفاق کا صوبوں کو خط بہت سنجیدہ معاملہ ہوتا ہے۔‘
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ ’اگر واضح طور پر آئینی خلاف ورزی کا خطرہ ہو تو عدلیہ مداخلت کرے گی۔ ہو سکتا ہے خلاف ورزیوں پر دوسرے فریق کا اپنا موقف ہو۔ سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی پر عدالت کے لیے معاملہ پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ عدالتی حکم عملدرآمد کے لیے ہوتے ہیں۔‘
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ’کیا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ صورت حال ایگزیکٹیو کے بس سے باہر ہو چکی ہے؟ ریاست طاقت ور اور بااختیار ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’آپ چاہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ ڈپٹی کمشنر کا کردار ادا کرے؟ لانگ مارچ کا معاملہ تو اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی زیر التوا ہے۔‘
اس موقع پر جسٹس عائشہ اے ملک نے ریمارکس دیے کہ ’کیا وفاق کو نہیں معلوم کہ اپنی ذمہ داری کیسے پوری کرنی ہے؟ سپریم کورٹ انتظامی معاملات میں کیا کر سکتی ہے۔‘
جسٹس عائشہ نے مزید کہا کہ ’توہین عدالت کا معاملہ لارجر بینچ میں زیر التوا ہے جہاں فریقین نے یقین دہانی کی خلاف ورزی پر جواب دینا ہے۔ کیا آپ چاہتے ہیں کہ یہ بینچ الگ سے لانگ مارچ کے معاملے میں مداخلت کرے؟‘
جسٹس عائشہ اے ملک نے مزید کہا کہ ’انتظامیہ کو متحرک کریں کہ وہ اپنا کردار ادا کریں۔ آئے روز اسلام آباد میں پارلیمنٹ سمیت کئی جگہوں پر احتجاج ہوتے ہیں۔ کیا کبھی باقی احتجاجوں کے خلاف آپ عدالتوں میں گئے ہیں؟ ایک مخصوص جماعت کے لانگ مارچ میں ہی عدالت کی مداخلت کیوں درکار ہے؟‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’عدالت سارا بوجھ کیوں اٹھائے؟ پہلے کسی وجہ سے ایگزیکٹیو کے معاملات میں مداخلت کی تھی۔ ابھی کوئی وجہ نظر نہیں آ رہی۔‘
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون سے چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ لانگ مارچ کے حوالے سے انتظامیہ نے کیا کیا ہے؟
ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ ’انتظامیہ کو اسلام آباد میں لانگ مارچ کے لیے پی ٹی آئی کا خط موصول ہوا تھا۔ انتظامیہ نے پی ٹی آئی سے تاریخ، وقت اور جگہ کے متعلق پوچھا تھا، جس کا جواب نہیں دیا گیا۔‘
جہانگیر جدون نے مزید بتایا کہ ’وزیرآباد واقعے سے پہلے پی ٹی آئی نے خون ریزی کی باتیں کی۔ اس واقعے کے بعد انتظامیہ نے پی ٹی آئی کو اسلام آباد میں داخلے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔‘
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے یہ بھی بتایا کہ اسلام آباد میں جلسے کی اجازت کے حوالے سے کیس اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’بظاہر لانگ مارچ کے معاملے میں عدالت کی مداخلت قبل از وقت ہو گی۔ پی ٹی آئی کے 25 مئی کے جلسے کے لیے ایچ نائن گراؤنڈ کے لیے درخواست دی گئی تھی۔ انتظامیہ نے ایچ نائن گراؤنڈ دینے سے انکار کیا تو سپریم کورٹ نے مداخلت کی۔ ایچ نائن کا گراؤنڈ مختص ہونے کے باوجود ہجوم ڈی چوک چلا آیا۔ کیا آپ اس بات سے خائف ہیں کہ 25 مئی والا واقعہ دوبارہ ہو سکتا ہے؟‘
ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد کا موقف سننے کے بعد عدالت عظمیٰ نے لانگ مارچ کے خلاف کامران مرتضیٰ کی درخواست غیر موثر قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد کے موقف کے بعد عدالت کے حکم جاری کرنے کی کوئی وجہ نہیں رہی جبکہ معاملہ ہائی کورٹ میں بھی زیر التوا ہے۔
(ایڈیٹنگ: جویریہ حنا)