فرانس میں 29 نومبر، 1972 کو ایک شہری کا سر قتل کے ایک ایسے جرم میں سزا کے طور پر قلم کر دیا گیا جو انہوں نے نہیں کیا تھا۔
اس مقدمے نے مجرم کے وکیل کو اس قدر شدید صدمے سے دوچار کر دیا کہ انہوں نے اپنی باقی زندگی سزائے موت ختم کرنے کا مطالبہ کرتے گزاری۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق 36 سالہ روجر بونتیمس کا سر ایک نرس اور ایک گارڈ کے بہیمانہ قتل میں شریک ہونے کی وجہ سے قلم کیا گیا۔
قتل کی دونوں وارداتیں مشرقی فرانس میں جیل توڑنے کی ایک کارروائی کے دوران ہوئیں۔
پیرس کی لا سانتے جیل کے احاطے میں سر قلم کیے جانے کے سات منٹ بعد ان کے ساتھ سازش میں شریک ملزم کلود بوفے بھی ایسے ہی انجام سے دوچار ہو گئے۔
دہرے قتل کے جرم میں 39 سالہ شخص کا سر قلم کیے جانے کی سزا نے پورے فرانس کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
سزائے موت پر عملدرآمد کو دیکھنے والوں میں رابرٹ بودنتر نامی وکیل بھی شامل تھے۔
وہ سزات موت کے خلاف مہم چلانے والے ایسے وکیل تھے جن کے دماغ میں یہ بات سما گئی کہ وہ اپنے کلائنٹ بونتیمس کی زندگی بچانے میں ناکام رہے۔
2002 میں ایک انٹرویو میں وزیر انصاف بیدنتر جنہوں نے 1981 میں سزائے موت کے عوامی مطالبے کی مخالفت کی، بونتیمس کی موت کے طویل عرصے بعد انکشاف کیا کہ ’علی الصبح جاگنے پر میں سوچا کرتا تھا کہ ہم ناکام کیوں ہوئے۔
’انہوں نے تسلیم کر لیا تھا کہ انہوں (سزائے موت پانے والے) نے کسی کو قتل نہیں کیا، پھر انہوں نے انہیں سزائے موت کیوں دی؟‘
واقعہ کیا تھا؟
ستمبر 1971 میں عادی مجرم بوفے، جو کلیروو جیل میں قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے، نے ساتھی قیدی راجر بونتیمس، جو حملے اور بڑی چوری کے جرم میں 20 سال کی سزا کاٹ رہے تھے، کو اپنے ساتھ فرار ہونے کی کوشش پر راضی کیا۔
قیدیوں کی اس جوڑی نے بیماری کا بہانہ بنایا جس پر انہیں جیل کے ہسپتال منتقل کیا گیا، جہاں انہوں نے چمچ کو مخصوص شکل دے کر بنائے گئے چاقوؤں کی مدد سے ایک نرس اور گارڈ کو یرغمال بنا لیا۔
انہوں نے آزاد نہ کیے جانے اور ہتھیار فراہم کرنے کی صورت میں یرغمالیوں کو قتل کرنے کی دھمکی دی۔
اس طرح قیدیوں اور حکام کے درمیان تعطل پیدا ہو گیا۔
اس دوران فرانسیسی شہریوں کی نظرین ٹیلی ویژن پر جم گئیں حتیٰ کہ پولیس نے علی الصبح جیل پر دھاوا بول دیا، جہاں دونوں یرغمالی مردہ پائے گئے اور ان کے گلے کٹے ہوئے تھے۔
دو بچوں کی ماں نرس اور ایک سالہ بچی کے والد جیل وارڈن کے قتل نے سزائے موت سے متعلق بحث کو جنم دیا۔
اس سزا پر صدر جارج پومپیدو کے دور حکومت کے بعد سے عمل درآمد نہیں کیا گیا تھا۔ حقیقت پسند قوم پرست پومپیدو دو سال قبل اقتدار میں آئے تھے۔
1972 میں جب اوب میں مقدمے کی سماعت ہوئی تو سینکڑوں لوگ عدالت کے باہر سڑکوں پر جمع ہو گئے۔
مقتولہ نرس کے شوہر اور وارڈن کے اہل خانہ بھی ان لوگوں میں میں شامل تھے۔
ذرائع ابلاغ نے بوفے کو سنگدل شخص بنا کر پیش کیا۔
انہوں نے گارڈ کو قتل کرنے اور نرس پر چھری سے وار کرنے کا اعتراف کر لیا اور عدالت کی طرف سے سزائے موت کی مخالفت کی۔
دوسری طرف بونتیمس کو محض جرم میں معاون پایا گیا لیکن انہیں بھی سزائے موت دی گئی کیوں کہ جیل کے وارڈنز کے اس گروپ کا شدید دباؤ موجود تھا، جو اپنے ساتھی کی موت کا انتقام لینا چاہتا تھا۔
بیدنتر نے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں اپیل دائر کی کہ ’آنکھ کے بدلے آنکھ‘ کے قانون پر عملدرآمد نہ کیا جائے۔
بعد میں انہوں نے صدر پومپیدو سے اپیل کی، جنہوں نے چھ قیدیوں کی سزائے موت کو معاف کر دیا تھا۔
لیکن ان کی اپیلوں پر کان نہیں دھرا گیا کیوں کہ اس حوالے سے معلوم کی جانے والی رائے میں 63 فیصد فرانسیسی شہریوں نے سزائے موت کے حق میں ووٹ دیا۔
28 نومبر، 1971 کوبونتیمس اور بوفے کا لا سانتے جیل کے صحن میں سر قلم کر دیا گیا۔
اس مقصد کے لیے سیاہ رنگ کا بہت بڑا خیمہ لگایا گیا تا کہ میڈیا کو ہیلی کاپٹر سے تصویریں بنانے سے روکا جا سکے۔
بیدنتر، جن کے والد کی نازی حراستی کیمپ میں موت ہوئی تھی، نے کہا کہ اس مقدمے نے سزائے موت پر ان کے مؤقف کو تبدیل کر دیا۔
’دانش ورانہ سوچ سے مخالفت کرنے والے کارکن تک‘
بیدتنتر نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’اس دن علی الصبح لا سانتے جیل کے صحن سے جاتے ہوئے میں نے قسم کھائی کہ میں اپنی باقی زندگی سزائے موت کے خاتمے کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے گزاروں گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پانچ سال بعد انہوں نے جیوری کو اس بات پر قائل کرنے میں مدد کی کہ وہ ایک ایسے شخص کو پھانسی نہ دے جنہوں نے ایک سات سالہ لڑکے کو اغوا کرکے قتل کر دیا تھا۔
انہوں نے اس مقدمے کو خود سزائے موت کے مقدمے میں تبدیل کر دیا۔
انہوں نے ماہرین پر زور دیا کہ وہ سر قلم کرنے والی مشین کے کام کرنے کی خوف ناک تفصیلات بتائیں، جو 1789 میں انقلاب فرانس کے بعد سے قیدیوں کا سر قلم کرنے کے لیے استعمال کی جا رہی تھی۔
مجموعی طور پر انہوں نے چھ افراد کو سزائے سے بچا لیا۔ اس دوران انہیں قتل کی دھمکیاں دی گئیں۔
مخالفین کی طرف سے ’قاتلوں کا وکیل‘ قرار دیے جانے والے بیدنتر یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ہم سامنے کے دروازے سے عدالت میں داخل ہوئے جب ایک بار فیصلہ پڑھ کر سنا دیا جاتا اور ملزم کی جان بچ گئی تو ہمیں اکثر پچھلے دروازے سے جانا پڑتا۔‘
جب انہیں صدر فرانسو متراں کی پہلی سوشلسٹ حکومت میں وزیر انصاف مقرر کیا گیا تو انہوں نے سزائے موت کے خاتمے کو فوری ترجیح بنا لیا۔
بالآخر 30 ستمبر،1981 کو بیدنتر کے ارکان پارلیمنٹ سے تاریخی خطاب کے بعد پارلیمنٹ نے سزائے موت ختم کرنے کی منظوری دے دی۔
انہوں نے نظام انصاف کو ’قاتل‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’آنے والے کل کے لیے آپ کا شکریہ۔ سیاہ خیمے تلے علی الصبح چپکے سے سزائے موت پر عملدرآمد نہیں ہو گا، جو ہم سب کے لیے باعث شرم ہے۔‘
(ایڈیٹنگ: جویریہ حنا | ترجمہ: علی رضا)