’ہیلو، میں ثمینہ بیگ ہوں۔‘ ایسی خاتون جن کے چہرے سے اعتماد جھلک رہا تھا، انہوں نے اپنا تعارف کراتے ہوئے ہاتھ بڑھایا۔ ان نوجوان خاتون کی یہ پراعتمادی انہیں پہاڑوں کی چوٹیوں سے ملی ہے۔ ثمینہ بیگ پاکستان کی پہلی خاتون کوہ پیما ہیں جنھوں نے ایورسٹ کو سر کیا۔ اور وہ پہلی خاتون ہیں جنھوں نے محض آٹھ ماہ میں سات براعظموں کی سات بلند ترین چوٹیاں سر کیں۔
ثمینہ بیگ اپنی کوہ پیمائی کے معرکوں کے باعث ہمیشہ خبروں کی زینت بنیں۔ اقوام متحدہ کے پروگرام برائے تعمیر و ترقی میں برانڈ ایمبیسیڈر تعینات ہوئیں۔ وزیر اعظم کی حالیہ تشکیل شدہ نیشنل یوتھ کونسل میں بھی ان کی شمولیت ایک اہم اضافہ ہے۔
حال ہی میں پاکستانی عوام اور بالخصوص کوہ پیما اس وقت ششدر رہ گئے جب ثمینہ بیگ نے ٹویٹر پر پوسٹ کیا کہ دنیا کی دوسری بلند اور سب سے خطرناک ترین چوٹی کے ٹو سر کرنے کے لیے ان کو سپانسر شپ نہیں مل سکی۔
انہوں نے لکھا ’میں نے بڑی پریکٹس کی اور اس مہم کے لیے میں نے وہ سب تیاریاں کیں جو میرے بس میں تھا! لیکن میں ایک بار پھر سپانسرشپ حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ یہ دو سال میں دوسری بار ہو رہا ہے۔‘
ثمینہ بیگ سے کے ٹو مہم کے بارے میں جب پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا ’میں اس میدان میں نئی نہیں ہوں۔ میں نے ایورسٹ سر کی ہے اور میں نے سات براعظموں میں سات بلند ترین چوٹیاں بھی سر کی ہیں۔ اس کے علاوہ کئی دیگر چوٹیوں پر اپنے قدم جمائے ہیں۔‘
کے ٹو کی مہم کے لیے سپانسر شپ لگاتار دوسرے سال بھی نہ ملنے سے مایوسی ان کے چہرے پر عیاں تھی لیکن ان کی آواز میں ’کے ٹو سر کرنے والی پاکستان کی پہلی خاتون کوہ پیما‘ بننے کے خواب کو پورا کرنے کا عزم تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس قسم کی مشکلات ان کو پہلے بھی پیش آ چکی ہیں لیکن اس وقت بیرون ملک رہنے والے دوستوں نے ان کی مدد کی اور وہ کوہ پیمائی کا خواب جاری رکھنے میں کامیاب رہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ایورسٹ کو سر کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون بننے کے لیے انہوں نے کئی اداروں سے رابطے کیے لیکن ناکامی ہوئی۔ ’پھر اللہ نے میرا ساتھ دیا اور نیوزی لینڈ کے ایک شہری نے میری مدد کی تاکہ میں پاکستان کا جھنڈا ایورسٹ کی چوٹی پر گاڑ سکوں۔ ‘
انہوں نے مزید بتایا کہ سات براعظموں میں سات چوٹیاں سر کرنے کی مہم میں بھی انہوں نے پاکستان سے ایک پیسہ تک نہیں لیا اور اس مہم کے لیے نیوزی لینڈ، امریکہ اور کینیڈا سے مدد ملی۔ ’لاجسٹک کی مدد سرینا ہوٹل پاکستان نے ’ایڈونچر ڈپلومیسی‘ کے تحت کی جبکہ باقی تعاون پانچ ممالک کے سفارتخانوں کا تھا اور اس طرح میں سات براعظموں میں پاکستان کی سفیر بن کر گئی اور لوگوں کو پاکستان کے بارے میں بتایا۔‘
کے ٹو مہم کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ چاہتی تھیں کہ اس مہم کے لیے سپانسر شپ پاکستان ہی سے ملے اور اس کے لیے انہوں نے کئی اداروں سے رابطے کیے۔
ادارے کا نام ظاہر نہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ انہوں نے 2017 میں 2018 کی مہم سپانسر کرنے کا وعدہ کیا تھا اور اس حوالے سے تمام تفصیلات طے بھی کی گئیں۔ ثمینہ کے بقول انہیں مذکورہ ادارے نے آخری وقت پر بتایا کہ ان کے پاس سپانسر کرنے کے لیے رقم نہیں ہے۔
’2018 کی مہم کے لیے رقم نہ دینے کے باوجود اس ادارے نے وعدہ کیا کہ 2019 میں کے ٹو مہم کے لیے مجھے سپانسر کریں گے لیکن اس سال بھی انہوں نے مجھے عین وقت پر یہ کہہ دیا کہ وہ رقم نہ ہونے کی وجہ سے اس سال بھی سپانسر نہیں کر سکتے۔‘
سپانسرز کے رویے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ انہوں نے دو سال کے ٹو سر کرنے کے لیے سخت محنت، ورزش اور ضروری پریکٹس کی لیکن سب محنت ضائع ہو گئی۔ ’سب سے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اس ادارے نے رقم نہ ہونے کے بارے میں اتنی دیر سے بتایا کہ وہ کسی اور کے پاس سپانسر شپ کے لیے بھی نہیں جا سکتی تھیں۔‘
ثمینہ سب سے پہلی کوہ پیما ہیں جنہوں نے 2010 میں چشکن سر نامی پہاڑ سر کیا اور اس کا نام ثمینہ پیک رکھ دیا گیا۔ 2011 میں ایک اور 6000 میٹر بلند پہاڑی کو جرمنی، پولینڈ اور پاکستانی کوہ پیماؤں کے ساتھ سر کیا اور اس کا نام انہوں نے ’کوہ بروبر‘ رکھا۔اپنی مہمات اور پیغامات میں ثمینہ بیگ ہمیشہ جنسی برابری کے حق اور جنسی امتیاز کے خاتمے کی بات کرتی ہیں۔ لیکن وہ کوہ پیما جو ہمیشہ خواتین کی برابری کے لیے آواز بلند کرتی ہیں کیا وہ خود امتیازی سلوک کا شکار ہو گئی ہیں؟
اس سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا: ’میں ایک ہی نتیجے پر پہنچ سکتی ہوں کہ سپانسر کرنے والے ادارے مرد کوہ پیماؤں کو خواتین کوہ پیماؤں پر ترجیح دیتے ہیں۔ کچھ ادارے ایسے ہیں جن سے میں نے کے ٹو کے لیے رابطہ کیا تو انہوں نے مجھے انکار کیا جبکہ مرد کوہ پیماؤں کی مدد کی۔‘
لگاتار دو سال تک سپانسر شپ نہ ملنے کے بعد ان کا کہنا ہے کہ اس ملک میں خواتین کے لیے کچھ نہیں بدلے گا۔ ’ایک خاتون یہ ثابت کرتی ہے کہ وہ پہاڑی چوٹیاں سر کرنے جیسے بڑے کارنامے کر سکتی ہے لیکن اس کے باوجود اس کی مدد نہیں کی جاتی۔‘
پاکستان میں سرینا ہوٹل کا شمار ایڈونچر سپورٹس کے صف اول کے سپانسرز میں ہوتا ہے۔ انہوں نے حال ہی میں گلگت بلتستان میں ہونے والی ٹور ڈی خنجراب سائیکل ریس کو بھی سپانسر کیا۔ اس سائیکل ریس کے بارے میں گلگت بلتستان حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ دنیا کی بلند ترین سائیکل ریس ہے۔
سرینا ہوٹل کے سینیئر مینیجر مارکیٹنگ اور کمیونیکیشن نے سپانسر شپ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سپانسر شپ کے لیے جو درخواستیں بھی آتی ہیں ان کی جانچ میرٹ پر کی جاتی ہے نہ کہ جنسی بنیادوں پر۔ ’سپانسر شپ کےلیے آنے والی درخواست میں ہم دیکھتے ہیں کہ اس میں کیا مختلف ہے، دوسرا ماضی میں امیدوار نے کیا کیا ہے اور تیسرے کہ مستقبل میں اس کا کیا پلان ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ سپانسر شپ ہر کیس میں مختلف ہوتی ہے اور اس کا دارومدار سیرینا ہوٹل کی ایڈونچر ڈپلومیسی کے بجٹ پر بھی ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسی درخواست کو سپانسر کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے جس ہر دوسرا یا تیسرا بندہ وہی کام کر رہا ہو اور اسی لیے دیکھا جا سکتا ہے کہ جس کام کے لیے رقم مانگی جا رہی ہے اس میں مختلف کیا ہے جو دوسرے نہیں کر رہے۔
’مثال کے طور پر سرباز خان کی بات کرتے ہیں۔ ہم نے ’لہوٹسے‘ پہاڑ سر کرنے کے لیے ان کی مہم کو پورا سپانسر کیا کیونکہ وہ اسے آکسیجن کے بغیر سر کر رہے تھے۔ لیکن لہوٹسے سے قبل سرباز نے نانگا پربت اور کے ٹو اپنی رقم سے سر کیا۔ بہت سے کوہ پیما لہوٹسے سر کرتے ہیں لیکن سرباز نے کچھ مختلف کیا۔‘
تو کیا دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو اور پاکستان کی پہلی خاتون کوہ پیما اس سپانسر شپ کے لیے اہل ہیں؟ اس معاملے میں سب اہم عناصر موجود ہیں: جیسا کہ بطور پہلی پاکستانی خاتون کوہ پیما ثمینہ کا ریکارڈ سب کے سامنے ہے اور ان کی مستقبل کی منصوبہ بندی بھی سب جانتے ہیں۔ ہمیں علم ہے کہ وہ دنیا میں پاکستان کی شبیہ درست طور پر پیش کرنا چاہتی ہیں اور ملک میں خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے کی جانے والی کوششوں کو بھی منظر عام پر لانا چاہتی ہیں۔
مسٹر حسین نے کہا ’ثمینہ بیگ کی کے ٹو سپانسر شپ کی درخواست کو دیکھ کر سیرینا ہوٹل ان کی ضرور مدد کرے گا۔ ہم لوگ ہمیشہ ایسی چیز ڈھونڈتے ہیں جس سے دنیا میں پاکستان کا مثبت چہرہ دکھایا جا سکے۔‘
کومل عزیر ایک نوجوان پاکستانی کوہ پیما ہیں جو دبئی میں رہائش پذیر ہیں۔ وہ دوسری پاکستانی خاتون کوہ پیما ہیں جنہوں نے سات ہزار میٹر بلند سپانٹک پیک سر کی اور وہ ثمینہ بیگ اور ان کے بھائی مرزا علی کی شاگرد ہیں۔
سپانٹک سے قبل انہوں نے 2016 میں چھ ہزار میٹر بلند چوٹی سر کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوئیں۔ سپانٹک اور اس سے قبل کی جانے والی کوششوں میں تمام خرچہ انہوں نے خود اٹھایا تھا۔ ’میں دبئی میں اچھی نوکری کرتی ہوں اور میں نے بچت کر کے کوہ پیمائی کی۔‘
کومل کا کہنا ہے کہ سپانٹک کی مہم کے لیے انہوں نے کئی برانڈز اور ایسی کمپنیوں سے رابطہ کیا جو ایڈونچر سپورٹس کو سپانسر کرتی ہیں۔ لیکن صرف ایک کی جانب سے انہیں جواب آیا اور باقیوں نے زحمت ہی نہیں کی۔ لیکن جنہوں نے جواب دیا وہ کسی قسم کا ورلڈ ریکارڈ یا کوئی مقابلہ چاہتے تھے۔
’میں نے ان سے کہا کہ آپ کوہ پیماؤں کو پہاڑ کی چوٹی تک پہنچنے کے لیے ریس لگانے کا نہیں کہہ سکتے۔ کوہ پیما ایک ساتھ کام کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ کوہ پیمائی میں کوہ پیماؤں کے درمیان مقابلہ نہیں ہوتا بلکہ کوہ پیما کا پہاڑ کے ساتھ مقابلہ ہوتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا ہے کہ سپانسر اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور سمجھنا بھی نہیں چاہتے کہ اگر کوہ پیما کو یہ لگے کہ مہم جاری رکھنے سے جان کو خطرہ ہے تو وہ مہم کو ادھر ہی ختم کر کے واپس ہو جائے گا اور اس مہم کو کسی اور روز مکمل کرنے کے لیے زندہ رہے گا۔ ’لیکن سپانسرز کو نتیجہ چاہیے ہوتا ہے کسی بھی صورت میں۔‘
کومل کو اس بات کی مایوسی بہت زیادہ ہے کہ پاکستان میں اب بھی کوہ پیمائی کو ایک شوق کے طور پر لیا جاتا ہے۔ ’اس حوالے سے آگاہی کی بہت ضرورت ہے کہ کوہ پیمائی ایک مشغلہ نہیں ہے۔ جب تک قومی سطح پر آگاہی نہیں کی جائے گی تب تک سپانسرز انکار کرتے رہیں گے۔‘
’مجھے امید ہے کہ وزیر اعظم عمران خان جو خود بھی سپورٹس سے منسلک رہے ہیں وہ کرکٹ کے علاوہ دیگر کھیلوں کے فروغ پر بھی توجہ دیں گے۔‘
تاہم نوجوان کوہ پیما سعد محمد اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ خواتین کوہ پیماؤں کے لیے سپانسر شپ لینا زیادہ مشکل ہے۔
سعد آج کل دنیا کی تیرہویں بلند ترین چوٹی گیشربرم کو سر کرنے کی مہم پر ہیں جو آٹھ ہزار میٹر بلند ہے۔ ان کو بھی اس بات سے بہت تعجب ہوا کہ ثمینہ بیگ کو کے ٹو کے لیے سپانسر نہیں مل سکا۔
’اگرچہ میں اپنے آپ کو ثمینہ بیگ کے برابر نہیں تصور کر سکتا لیکن مجھے بھی سپانسر شپ حاصل کرنے میں اتنی ہی مشکلات پیش آتی ہیں۔‘
سعد 2009 سے کوہ پیمائی کر رہے ہیں اور وہ تب سے سپانسرز کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ ’جو تھوڑا بہت میرا تجربہ ہے اس کے مطابق کمپینیاں ان کھیلوں یا ایونٹس کو سپانسر کرتی ہیں جو جلدی ختم ہو جائیں، نہ کہ وہ کئی دنوں یا کئی ہفتوں پر محیط ہوں۔ مجھ سے بھی سپانسر کرنے کے وعدے کیے گئے اور مجھے بھی انکار کیا گیا۔ میں بڑے برانڈز کی بجائے چھوٹے سپانسرز کو ٹارگٹ کرتا ہوں۔ ہاں اس میں وقت زیادہ لگتا ہے اور دو سے زیادہ سپانسرز کو ایک ہی پیج پر لانا مشکل بھی ہوتا ہے لیکن ایسا کیا جا سکتا ہے۔‘
ثمینہ بیگ کا کہنا ہے کہ ’کے ٹو سر کرنا میرا خواب ہے اور میں اپنا خواب ضرور پورا کروں گی۔‘
ثمینہ کوہ پیمائی کے ذریعے دنیا میں پاکستان کا سافٹ امیج پھیلانے کی کوشش کرتی ہیں۔ انہوں نے اپنی ہر مہم میں ملک کا نام روشن کیا اور خواتین کے حوالے سے پاکستان کے منفی تاثر کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ثمینہ بیگ کہتی ہیں: ’لیکن بدقسمتی سے حقیقت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں خواتین ایتھلیٹس کو وہ تعاون نہیں ملتا جو مرد ایتھلیٹس کو ملتا ہے۔‘
حکومت نے جب پوری توجہ سیاحت کے فروغ پر مرکوز کی ہوئی ہے اور سیاحوں کے لیے ای ویزے جاری کیے جا رہے ہیں اور سرکاری ریسٹ ہاؤسز کو سیاحوں کے لیے کھولا جا رہا ہے تو ثمینہ بیگ اور کومل عزیر کی طرح کئی اور خواتین ایتھلیٹس بھی پاکستان کے سافٹ امیج کے فروغ میں بہت اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ پاکستانی خواتین نے ہر شعبے میں یہ ثابت کیا ہے کہ وہ کتنی محنتی اور باصلاحیت ہیں اور اگر ان کو بھی مرد کھلاڑیوں کے برابر سپورٹ دی جائے تو وہ کسی سے کم نہیں ہیں۔
بے شک اگر انہیں مساوی مواقع دئیے جائیں تو وہ ہر کارنامہ انجام دینے کی صلاحیت اور قابلیت رکھتی ہیں۔