افغانستان کے دارالحکومت کابل میں پاکستانی سفارت خانے پر ہونے والے حملے میں زخمی ہونے والے پاکستانی سکیورٹی اہلکار کا کہنا ہے کہ ناظم الامور کو بچانا ضروری تھا جو انہوں نے کیا ہے۔
کابل میں گذشتہ ہفتے پاکستانی سفارت خانے پر ہونے والے حملے میں پاکستانی ناظم الامور محفوظ رہے تھے تاہم ان کی سکیورٹی پر مامور اہلکار کو دو گولیاں لگی تھیں۔
اس حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کی تھی۔
کابل حملے میں پاکستانی ناظم الامور عبید الرحمان نظامانی کی سکیورٹی پر تعینات سکیورٹی اہلکار اسرار محمد کی ایک ویڈیو منظرعام پر آئی ہے جس میں وہ اس دن پیش آنے والے واقعے کی تفصیلات بتا رہے ہیں۔
سپاہی اسرار محمد نے اپنے بارے میں بتایا کہ ان کا تعلق سکس کمانڈو ایس ایس جی سے ہے اور انہیں 25 اپریل 2022 کو افغانستان میں ناظم الامور کی سکیورٹی پر تعینات کیا گیا تھا۔
پاکستانی سفارت خانے پر حملے کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ ’جمعے کو سفیر صاحب نے عصر کی نماز پڑھی، جس کے بعد بعد ہم چہل قدمی کر رہے تھے کہ کسی نے فائر کر دیا۔‘
’میں سفیر صاحب سے پانچ میٹر دوری پر تھا۔ میں نے سفیر صاحب کو جھپی لگائی۔ جوں ہی میں انہیں اٹھا رہا تھا تو اسی دوران مجھے سینے میں گولی لگی۔‘
حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ سفارت خانے پر حملے کی تحقیقات کر رہا ہے۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے پیر 5 دسمبر کو کہا: ’ہمیں یقین ہے کہ کابل میں ہمارے سفارت خانے کے انچارج ڈی افیئرز پر حملے کی مکمل تحقیقات کی جائیں گی۔ مجرموں اور منصوبہ سازوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔‘
زہرہ بلوچ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پرعزم ہے۔
اسرار محمد مزید بتاتے ہیں کہ ’میں نے ایک ہاتھ سینے پر رکھا اور دوسرے ہاتھ سے سفیر صاحب کو کھینچ رہا تھا۔‘
’میں نے ان (ناظم الامور) سے کہا کہ آپ کو گولی نہیں لگی بلکہ میرے کھینچنے سے آپ کو زمین سے معمولی زخم آئے ہیں۔‘
وہ مزید باتے ہیں کہ ’اس کے بعد مجھے ٹانگ پر گولی لگی۔ تب تک ہمارے دیگر ساتھی بھی وہاں پہنچ گئے تھے اور پھر مجھے ہوش نہیں رہا۔‘
اسرار محمد کہتے ہیں کہ ’جس ڈیوٹی کے لیے ہمیں تعینات کیا گیا ہے، اس کے لیے جان بھی قربان ہو جائے تو پروا نہیں۔ ہمارے نمائندے کا خیال رکھنا ضروری تھا جو میں نے کیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسرار محمد کی یہ ویڈیو پاکستان اور افغانستان کے نوجوانوں پر مشتمل پاک افغان یوتھ فورم نامی غیر سرکاری تنظیم نے جاری کی ہے۔
گذشتہ روز پانچ دسمبر کو افغان طالبان کا کہنا تھا کہ کابل میں پاکستانی سفارت خانے پر حملہ کرنے والے شخص کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔
طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں تصدیق کی پاکستانی سفارت خانے پر فائرنگ کرنے والے شخص کو خصوصی فورسز نے گرفتار کیا۔
ذبیح اللہ مجاہد نے اپنی ایک ٹویٹ میں بتایا کہ حراست میں لیے جانے والا شخص غیرملکی ہے اور شدت پسند تنظیم داعش کا رکن ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ حملہ باغیوں اور داعش نے مشترکہ طور پر کیا۔‘
افغانستان کے امور کے لیے پاکستان کے خصوصی نمائندے محمد صادق خان نے کہا تھا کہ ان کا ملک کابل میں ان کے سفارت خانے پر حملے کے سلسلے میں داعش گروپ کے دعوے کی طالبان حکام کی مشاورت سے تحقیقات کر رہا ہے۔
صادق نے سلسلہ وار ٹویٹس میں لکھا، ’داعش خراسان گروپ نے پاکستانی سفارت خانے کے کمپاؤنڈ پر حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ پاکستان آزادانہ طور پر اور افغان فریق کے ساتھ مشاورت سے معلوم کرے گا کہ اس میں کتنی صداقت ہے؟‘
انہوں نے لکھا، ’یہ حملہ ہمیں دوسرے خطرات کی یاد دلاتا ہے جو دہشت گردی افغانستان اور خطے میں پیدا کرنا چاہتی ہے، لیکن یہ دونوں ممالک کے لیے مفید ہے کہ وہ اس خوفناک رجحان اور اس خطرے کے خلاف مضبوط موقف اختیار کریں۔‘