سپریم کورٹ کی جانب سے حکم ملنے کے بعد اسلام آباد پولیس نے منگل کو صحافی ارشد شریف کے قتل کا مقدمہ درج کر لیا۔
سپریم کورٹ نے آج صبح حکم دیا تھا کہ مقدمہ آج رات تک درج کیا جائے، جس کے بعد رمنا پولیس سٹیشن میں ایس ایچ او رشید احمد کی مدعیت میں ایف آئی آر درج ہوئی۔
ایف آئی آر میں دفعہ 302/34 کے تحت خرم احمد، وقار احمد اور طارق احمد سیمت دیگر نامعلوم ملزمان کو نامزد کیا گیا۔
ایف آئی آر درج ہونے کے کچھ ہی دیر بعد ارشد سریف کی بیوہ جویریہ صدیق نے ٹویٹ کے ذریعے اپنا رد عمل ظاہر کیا ہے۔
انہوں نے سوال کیا ہے کہ پولیس کی مدعیت میں آیف آئی آر درج ہوگئی اب لواحقین کی مدعیت میں مقدمہ کون درج کرائے گا؟
حکومت کے حسب منشا پولیس نے اپنی مدعیت میں ایف آئی آر درج کردی اب لواحقین کی ایف آئی آر کون اور کب درج کرائے گا ؟؟
— Javeria Siddique (@javerias) December 6, 2022
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ارشد شریف کے قتل کا آج از خود نوٹس لینے کے بعد سماعت کی۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے ارشد شریف کی میڈیکل رپورٹ کو غیر تسلی بخش قرار دیا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کا خیر مقدم کیا ہے۔
ایک ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ وہ اس سلسلے میں چیف جسٹس آف پاکستان کو پہلے ہی خط لکھ چکے ہیں اور حکومت اس معاملے میں ہر ممکن تعاون کرے گی۔
I welcome Supreme Court taking suo motu notice of the murder of journalist Arshad Sharif. I had already written a letter to Honorable Chief Justice of Pakistan for setting up a Judicial Commission to probe the murder. The government will extend full cooperation to the Court.
— Shehbaz Sharif (@CMShehbaz) December 6, 2022
منگل کو سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’حقائق کی تلاش کے لیے کمیٹی کو کینیا بجھوایا گیا جس کی رپورٹ کو سامنے آئے کافی وقت ہو چکا ہے۔‘
’ہم نے ارشد شریف کی والدہ کے خط پر کارروائی شروع کی، اب تک وزارت داخلہ کی رپورٹ کیوں نہیں آئی؟‘ جس کے جواب میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وزیر داخلہ فیصل آباد میں ہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’کیا وزرات داخلہ نے رپورٹ میں تبدیلی کرنی ہے؟ وزیر داخلہ کو ہم طلب کر لیتے ہیں۔ ہمیں اطلاع آئی ہے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ 600 صفحات پر مشتمل ہے۔ تحقیقات کرنا ہمارا نہیں سرکار کا کام ہے۔‘
پاکستان کی اعلیٰ عدالت نے وزارت داخلہ، خارجہ، اطلاعات کے سیکریٹریز، ڈی جی ایف آئی اے، ڈی جی انٹیلی جنس بیورو اور پی ایف یو جے کے صدر کو بھی نوٹس جاری کیے تھے۔
چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ’انہیں کل میڈیکل رپورٹ ملی ہے۔ ارشد شریف کو قتل ہوئے 43 روز ہو گئے۔
’میڈیکل رپورٹ دیکھی ہے وہ پریشان کن ہے۔ اگر کوئی جھوٹ بولے تو اس کے خلاف قانون کے تحت کارروائی ہونی چاہیے۔ سچ کی آواز کو دبایا نہیں جا سکتا، صحافیوں کا تحفظ ہونا چاہیے۔
’آپ کو یہ کہنا چاہیے کہ رپورٹ کے کچھ حصے حساس نوعیت کے ہیں، انہیں عدالت میں زیر بحث نہیں لانا چاہیے۔‘
صحافی ارشد شریف کو 23 اکتوبر 2022 کو کینیا میں پولیس نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا، جس کے بعد کینیا کی پولیس نے اس واقعے کو ’غلطی‘ قرار دیا تھا۔
سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران سیکرٹری خارجہ کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے بھی کینیا کے حکام سے بات کی جبکہ پاکستانی حکام کینیا کے حکام سے رابطے میں ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’ان کی اطلاع کے مطابق ابھی تک ارشد شریف کے قتل کی پاکستان میں ایف آئی آر ہی درج نہیں ہوئی۔ کینیا میں بھی ارشد شریف کے قتل کی کوئی شکایت درج نہیں ہوئی۔‘
سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کا جائزہ لے کر ہی مقدمہ درج کرنے سے متعلق فیصلہ ہوگا۔ جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ مقدمہ درج کرنے کا کیا یہ قانونی طریقہ ہے؟
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ارشد شریف کے قتل کی ایف آئی آر کہاں ہے؟ مقدمہ درج کیے بغیر کیس کی تحقیقات کیسے ہوسکتی ہیں؟
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ حالات کی سنگینی کی وجہ سے ہی پانچ رکنی بنچ تشکیل دیا گیا ہے۔ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ آج ہی جمع کروائیں تاکہ کل اس پر سماعت ہو سکے۔
بعد ازاں عدالت نے ایف آئی آر آج رات تک درج کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت سات دسمبر تک ملتوی کر دی ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے منگل ہی کو اقوام متحدہ کے 10 سالہ پلان آف ایکشن کے موضوع پر جرنلسٹ سیفٹی فورم کے تحت منعقدہ ایک تقریب میں کہا کہ ’حال ہی میں صحافی ارشد شریف کا قتل ایک انتہائی افسوس ناک واقعہ تھا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ ان کی کینیا کے صدر سے اور پاکستانی ایجنسیز سے بات ہوئے ہے اور انہوں نے اس حوالے سے فوری ایکشن کے لیے کہا تھا۔
اس کیس میں پاکستان کی جانب سے تفتیش کے بارے میں بہت سے سوالات اٹھائے گئے ہیں، جن کا آغاز مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی تشکیل سے ہوا۔ یہ ٹیم حکومت نے 25 اکتوبر کو قتل کی تحقیقات کے لیے مقرر کی تھی۔
جوڈیشل کمیشن پر تنقید
صحافی کے تحفظ کے لیےسرگرم تنظیم آر ایس ایف کا کہنا ہے کہ اس نے ایک خط دیکھا ہے جو مرحوم ارشد شریف نے جولائی میں پاکستان کی سپریم کورٹ کے سربراہ کو بھیجا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں موصول ہوئی ہیں۔
وزیراعظم کی جانب سے قتل کی تحقیقات کے لیے بنایا گیا نیا جوڈیشل کمیشن 6 نومبر کو اس وقت مشکل میں پڑ گیا جب اس کے سربراہ کے لیے مقرر کیے گئے ریٹائرڈ جج عبدالشکور پراچہ نے کمیشن کے بارے میں شریف کی والدہ کے تحفظات کا حوالہ دیتے ہوئے کام کرنے سے انکار کردیا۔
شریف کی والدہ نے اس حقیقت پر تنقید کی کہ اس کمیشن میں وہ شخص شامل ہے جو اس کیس کے سلسلے میں پہلے ہی نیروبی جا چکا تھا اور دوسرا اس میں کوئی صحافی شامل نہیں تھا۔ جسٹس پراچہ نے عدالت عظمیٰ کے صدر سے مداخلت کا مطالبہ کرتے ہوئے اتفاق کیا، ’یہ ضروری ہے کہ میڈیا کے نمائندے کو لے لیا جائے۔‘
موجودہ حکومت کے شدید ناقد اور عمران خان کی پارٹی کے حامی سمجھے جانے والے، ارشد شریف نے موت سے قبل پاکستان کے اداروں کو بار بار تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
ایک سوال اب بھی جواب طلب ہے کہ آیا جے آئی ٹی کینیا سے واپس آ چکی ہے اور اب تک اپنے ابتدائی نتائج بشمول شریف فیملی کے بارے میں اس کی تحقیقات کیا بتاتی ہیں۔