11 سالہ دلاور خان کا شمار کوئٹہ کے ان بچوں میں ہوتا ہے جن کے دن کا آغاز فجر کی نماز کے فوراً بعد ہو جاتا ہے اور وہ گھر سے باسی روٹی پانی یا کبھی بغیر دودھ کی چائے کے ساتھ کھا کر دیگر ساتھی بچوں کے ساتھ گھر سے کچرا چننے روانہ ہو جاتا ہے۔
اس کی واپسی شام ڈھلے ہی ہوتی ہے۔ کئی دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ گھر سے بھوکا نکل جاتا ہے اور کچرے سے کھانے پینے کی اشیا ڈھونڈ کر پیٹ کا دوزخ بھرتا ہے۔
’میں اور میرے ساتھی گذشتہ تین سال سے کوئٹہ کے مختلف علاقوں میں کچرا چن رہے ہیں۔ اگرچہ پہلے کی نسبت اب کوئٹہ کے زیادہ ترعلاقوں میں کچرے کے ڈھیر لگے رہتے ہیں مگر پشتون آباد، سیٹلائٹ ٹاؤن، سرکی روڈ، سریاب روڈ اور اس سے ملحقہ علاقے آلودہ ترین علاقے ہیں۔ اس لیے ہمیں یہاں سے کھانے پینے کی اشیا کے علاوہ، ردی، کاغذ، پلاسٹک بیگز اور دھاتوں کے ٹکڑے بھی باآسانی مل جاتے ہیں جنھیں ہم شام میں سرکی روڈ کی کچرا ری سائیکل دکانوں پر فروخت کر دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم نے آپس میں علاقے بھی تقسیم کیے ہوئے ہیں اور روزانہ گھروں سے کچرا اٹھا کر کوڑا گھر تک پھینکنے کے ہمیں فی گھر 20 سے 30 روپے دیے جاتے ہیں۔‘
دلاور خان نے کسی پروفیشنل کی طرح معلومات فراہم کیں۔ اس دوران مکھیاں مسلسل اس کی گندگی سے اٹی انگلیوں پر بھنبھناتی رہیں مگر ایسا لگتا تھا کہ وہ گندگی کے احساس سے بیگانہ ہو چکا ہے۔
کوئٹہ میں آبادی کے تیزی سے بڑھنے کے باعث بےروزگاری اور غربت کی شرح میں گذشتہ پانچ سالوں کے دوران بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور والدین لالچ یا خود غرضی میں جان بوجھ کر اپنے بچوں کو اس کام میں دھکیل رہے ہیں جو نہ صرف ان کے لیے غیر محفوظ بلکہ ان کی جسمانی و دماغی صحت دونوں کے لیے شدید نقصان دہ ہے۔
ان بچوں کو دکان دار بلکہ راہ چلتے لوگ اور عزیز و اقارب جنسی بھوک مٹانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
بلوچستان میں ابھی تک بچوں کے ریپ یا ریپ کے بعد قتل کے زیادہ کیس سامنے نہیں آئے جو ملکی و بین الاقوامی میڈیا کی توجہ کا مرکز بن سکیں مگر کوئٹہ کے رہائشی افراد بخوبی واقف ہیں کہ کچرا چننے والے ان بچوں کو ہر روز کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
14 سال ولی محمد بھی کچھ عرصے پہلے تک اپنے گاؤں کی گلیوں میں مست کھیلتا، دھول اڑاتا ایک معصوم بچہ تھا جو آج کوئٹہ کی گلیوں میں ریڑھی لگا کر گھر گھر کچرا جمع کرتا ہے اور بھول چکا ہے کہ کب، کہاں انہی گلیوں میں اس کا بچپن اور معصومیت کھو گئے تھے۔
’میں اپنے گاؤں کلی کاؤس ڈسٹرکٹ زیارت کے سکول کا ایک ہونہار طالبعلم تھا مگر حالات نے مجھے آج یہاں پہنچا دیا۔ والد کو چرس کے نشے کی لت لگنے کے بعد جب ہمارے گھر فاقوں کی نوبت آنے لگی اور زیارت میں شدید سردی کے باعث مناسب روزگار ملنا دشوار ہو گیا تو گھر کا بڑا بیٹا ہونے کے باعث میری ماں نے مجھے ایک رشتہ دار کے ساتھ کوئٹہ بھیج دیا۔
’یہاں مسلسل کئی روز کا فاقہ مجھے ایک دن کچرے کے ڈھیر پر لے آیا اور پھر زندگی ایک نئی ڈگر پر چل پڑی۔ میں دن بھر کچرا چن کر رات کسی دکان کے پیچھے جا کر سو جاتا۔ مگر ایک رات ایسی بھی آئی کہ اس کی تاریکی آج تک چھٹ نہیں سکی۔ سرکی روڈ کے نواح میں ایک دکان دار کے ہاتھوں جنسی استحصال کا شکار ہونے کے بعد میں اس قدر خوفزدہ تھا کہ صبح ہونے سے پہلے ہی واپس گاؤں بھاگ گیا۔ میں ماں کی گود میں چھپ جانا چاہتا تھا مگر اب وہاں بھی میرے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ میری ماں اور بہن بھائیوں کو روٹی اور پیسوں کی ضرورت تھی، میری نہیں۔ سو واپس انہی گلیوں، انہی کوڑے کے ڈھیروں پر لوٹ آیا اور اب یہی میرا مسکن ہیں۔‘
ولی کی مدھم آواز میں چھپا درد دل کو چیرے دے رہا تھا۔
مگر یہ صرف ایک ولی محمد کا درد نہیں آپ کو کوئٹہ کی ہر دوسری گلی میں ایک ولی محمد ملے گا جس کی آواز کو کبھی دو وقت کی روٹی تو کبھی چند نوٹوں کے عوض دبا دیا جاتا اور اس وقت تک دبایا جاتا رہے گا جب تک صوبائی یا مرکزی حکومت اس سنگین صورتِ حال کا نوٹس لے کر ان مزدور بچوں کے حقوق کے تحفظ کا موثر انتظام نہیں کرتی۔
پاکستان بلکہ بلوچستان میں بھی چائلڈ لیبر کے حوالے سے باقاعدہ قانون موجود ہے مگر اس پر عمل درآمد آج تک نہیں ہو سکا۔ دیکھا جائے تو سڑکوں اور کوڑا گھروں سے کچرا چننے والے یہ بچے ایک طرح سے ’ماحول دوست‘ یا سوشل ورکر کا کردار ادا کر رہے ہیں اور جو کام کوئٹہ میونسپل کارپوریشن نہیں کرتی وہ یہ بچے بلاناغہ سرانجام دیتے ہیں، مگر اس کے عوض انھیں عزت و تحفظ دینے کے بجائے دھتکارا اور کم تر سمجھا جاتا ہے بلکہ جنسی زیادتی کا نشانہ بنا کر ان کی زندگی برباد کی جا رہی ہے۔
اس ضمن میں جب چائلڈ لیبر پر کام کر نے والی کوئٹہ کی ایک معروف سوشل ورکر مسز مسرت جبیں سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا ’ہم اس پر گذشتہ تین چار سال سے کام کر رہے ہیں اور چھ یا سات سال سے کم عمر بچے جنھیں ان کے والدین بے حسی سے اس پروفیشن میں دھکیل رہے ہیں ہم ان کے تحفظ کے علاوہ تعلیم اور والد یا سر پرست کے روزگار کے کئی منصوبوں پر بھی کام کر رہے ہیں تاکہ چائلڈ لیبر کی اس بدترین صورت کو کسی طرح جڑ سے ختم کیا جائے۔‘
مگر اس مقصد کے لیے اکیلی این جی اوز کچھ نہیں کر سکتیں۔ صوبائی حکومت کو اس سلسلے میں موثر قانون سازی کر کے سختی سے اس کا قلع قمع کرنا ہو گا، جس کے لیے ہمارے قوانین کا چائلڈ لیبر کے بین الاقوامی ضابطۂ اخلاق اور قوانین کے مطابق ہونا ضروری ہے۔
مگر ہماری حکومتوں کا المیہ یہ ہے کہ یہاں اب تک جو قانون سازی کی گئی ہے اس پر بھی صوبائی حکومت کی جانب سے عمل کرانے کی کوئی خاص کوشش نہیں کی جا رہی، اس وجہ سے یہ صورت حال سنگین ہوتی جا رہی ہے۔
ان بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے واقعات کی شرح بڑھنے سے لامحالہ یہ صورتحال ایک ایسی چنگاری بنتی جا رہی ہے جو کسی بھی وقت بھڑک کر ہماری اس آلودہ سوسائٹی کو بھسم کر سکتی ہے۔
(نوٹ: شناخت چھپانے کے لیے تحریر میں کرداروں کے نام تبدیل کر دیے گئے ہیں)