افغانستان کے لوگر صوبے میں تین خواتین اور گیارہ مردوں کو طالبان کی ایک عدالت کی جانب سے سزا ملنے کے بعد صوبے کے صدر مقام پل عالم شہر کے فٹبال سٹیڈیم میں ہزاروں لوگوں کے سامنے کوڑے لگائے گئے۔
مقامی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق اس سزا پر عملدرآمد کے دوران صحافیوں کو ویڈیوز اور تصاویر لینے کی اجازت نہیں تھی۔
لوگر میں طالبان حکومت کے صوبائی عہدیداروں نے میڈیا کو بتایا کہ ان افراد کی سزا کا تعین لوگر کی اپیل کورٹ نے کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ان لوگوں کو چوری، ناجائز تعلقات اور گھر سے بھاگنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا‘ اور ان کی عمریں 21 سے 39 سال کے درمیان تھیں۔
طالبان حکومت کی سپریم کورٹ نے بھی الگ الگ اخبارات میں اعلان کیا ہے کہ گذشتہ دو ہفتوں میں لغمان، تخار اور بامیان صوبوں میں 11 خواتین اور 12 مردوں کو سرعام کوڑے مارے گئے ہیں۔
افغانستان میں 39 کوڑے زیاد سے زیادہ حد ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق طالبان سپریم لیڈر ہبت اللہ اخوندزادہ نے رواں ماہ ججوں کو حکم دیا کہ وہ اسلامی قانون کے ان پہلوؤں کو مکمل طور پر نافذ کریں جن میں سرعام پھانسی، سنگساری، کوڑے اور چوروں کے اعضا کاٹنا شامل ہیں نیز یہ پہلا موقع ہے کہ حکام نے عدالت کی طرف سے دی گئی اس طرح کی سزا کی تصدیق کی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ گروپ کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخون زادہ نے چند روز قبل طالبان کے ججوں سے ملاقات کی اور انہیں اپنے فیصلوں میں شریعت کے نفاذ کی ہدایت کی۔
یہ تمام سزائیں اس وقت دی جا رہی ہیں جب یورپی پارلیمنٹ کے سربراہ نے طالبان رہنما کے اس فیصلے کو افغانستان کی سابقہ دور کی طرف واپسی قرار دیا ہے۔
یورپی پارلیمنٹ کی ویب سائٹ پر ان کے بیان کے مطابق ’قندھار سے موصول ہونے والی رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا جلد ہی سرعام پھانسی، سنگساری اور کوڑوں کا مشاہدہ کرے گی۔‘
2001 کے اواخر میں ختم ہونے والے اپنے پہلے دور حکومت میں طالبان نے باقاعدگی سے عوام کے سامنے سزائیں دی تھیں جن میں نیشنل سٹیڈیم میں کوڑوں اور پھانسی کی سزا بھی شامل تھی۔