سعودی عرب کا کہنا ہے کہ تقریباً ایک دہائی میں پہلی بار اس کا سالانہ بجٹ سرپلس (خرچ سے زیادہ آمدن) ریکارڈ کیا گیا ہے۔
فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق بدھ کو وزارت خزانہ نے بتایا کہ سال 2022 کے لیے سرپلس 102 ارب سعودی ریال (27 ارب ڈالر) تک پہنچ چکا ہے، جو جی ڈی پی کا 2.6 فیصد بنتا ہے۔ گذشتہ برس سرپلس کا تخمینہ 2022 کے لیے 90 ارب سعودی ریال لگایا گیا تھا۔
وزارت خزانہ نے کہا کہ اس سال سعودی عرب، جو خام تیل کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ملک ہے، اس کی مجموعی ملکی پیداوار) کی نمو 8.5 فیصد ریکارڈ کی گئی، جو کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے تخمینے 7.6 فیصد سے زیادہ ہے۔
وزارت نے کہا کہ سال2023 کے لیے منظورشدہ بجٹ میں 16 ارب سعودی ریال (چار ارب ڈالر) کے سرپلس اور جی ڈی پی میں 3.1 فیصد اضافے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
یہ مستحکم اعداد و شمار ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب دنیا کا بڑا حصہ کساد بازاری کے بڑھتے ہوئے خدشات سے دوچار ہے۔
اے ایف پی کے مطابق فروری میں یوکرین پر روس کے حملے کے بعد تیل کی قیمتوں میں اضافے سے سعودی عرب کو فائدہ ہوا ہے۔
تاہم بدھ کو ریاض میں صحافیوں کے ساتھ ایک بریفنگ میں سعودی وزیر خزانہ محمد الجدعان نے اس عام تصور کو رد کر دیا کہ فاضل پیداوار کی وجہ جنگ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ یہ سرپلس اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ سعودی عرب نے اپنے تیل اور گیس کے شعبے میں سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ دیگر شعبوں میں بھی ترقی کی، کیونکہ حکام اقتصادی تنوع کے ویژن 2030 ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا، ’ہم نے اس وقت سرمایہ کاری کی جب لوگ نہیں کر رہے تھے۔
’ہم اس سرپلس کی خوشی نہیں منا رہے۔ ہمارے لیے یہ کوئی بڑی خبر نہیں۔ ہمیں اس کی توقع تھی۔ اپنے اخراجات کو کم اور تیل کے بغیر اپنی آمدنی میں اضافہ کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔‘
’کریڈٹ کا مستحق‘
واشنگٹن میں عرب گلف سٹیٹس انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ رابرٹ موگیلینکی کا کہنا ہے کہ ’مالی صورت حال اور نمو کا براہ راست تعلق توانائی کی بلند قیمتوں اور بالواسطہ طور پر قیمتوں کو تبدیل کرنے والے عوامل اور جیو پولیٹیکل واقعات سے ہے۔
’اس کے باوجود سعودی عرب اپنے مالی استحکام اور معاشی اصلاحات کے لیے کریڈٹ کا مستحق ہے، جس سے مجموعی معاشی صورت حال میں بھی مدد ملی۔‘