سعودی عرب میں نیم کے درخت لگنے کے بارے میں آپ سوچ سکتے ہیں؟ میں نے جدہ میں وہ تک دیکھے اور کافی جگہ نظر آئے۔
جدہ سے باہر نکلیں تو بھی کئی جگہ چھوٹے پودے لگے نظر آتے ہیں۔ پچھلے دنوں بارشیں بے تحاشا ہوئیں تو ویسے بھی ہریالی نسبتاً زیادہ تھی۔
شہر کے اندر کی بات کریں تو نیا جدہ بہت پھیل چکا ہے اور اونچی عمارتوں سمیت کورین، جاپانی یا امریکی گاڑیوں سے بھرا ہوا ہے۔ لوگ اب فیول ایفیشنٹ گاڑیوں کی طرف مکمل متوجہ ہو چکے ہیں اور وہ لمبی گاڑیاں یا ہیوی ٹرک ٹائپ چیزیں کم نظر آتی ہیں۔
سڑکوں پر دفتری اوقات میں آپ کو ہجوم ضرور دکھائی دیتا ہے لیکن فیملی ٹائم آٹھ نو بجے کے بعد شروع ہونے کی روایت ہے۔
دسمبر کے مہینے میں سرشام ہوا ٹھنڈی ہو جاتی ہے اور جس طرح کراچی میں کبھی ایک خوشگوار صاف ستھری ہوا شام ڈھلے چلا کرتی تھی، آج کل اس کا بسیرا یہاں ہے۔
کئی علاقے بالکل ہمارے کلفٹن کے جیسے دکھائی دیتے ہیں، کہیں نارتھ ناظم آباد نظر آتا ہے اور بعض جگہ اسلام آباد کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے۔
العزیزیہ کے اطراف میں زیادہ غلبہ پاکستانی آبادی کا ہے اور ماحول بھی تقریباً دیسی ہے۔ دکانوں کے نام تک اردو میں لکھے مل جاتے ہیں۔
جہاں میں رہا، وہ علاقہ الحمرا کہلاتا ہے اور سمندر کے بالکل سامنے ہے۔ وہیں رٹز کارلٹن ہوٹل ہے، دنیا بھر کے شاپنگ برانڈز ہیں بہترین ہوٹل اور ریسٹورنٹ ہیں اور اس جگہ پہ شہر کوسموپولیٹن ہونے کا حق ادا کرتا نظر آتا ہے۔
قدم قدم پہ سیاح گھوم پھر رہے تھے، کچھ تو ریڈ سی کا میلہ تھا اور کچھ یہاں وژن 2030 کے بعد سے بھی مغربی سرمایہ کاروں اور سیاحوں کی دلچسپی زیادہ نظر آتی ہے۔
مقامی یا غیر مقامی کی اتنی زیادہ پہچان مجھے نہیں لیکن جہاں خاصی تعداد میں خواتین عبایا میں ملبوس ملیں، وہیں اس کے علاوہ کچھ خواتین کو دوسرے لباسوں میں بھی دیکھا۔ چند کو ڈرائیونگ کرتے بھی دیکھا۔
جدہ میں آپ کو دنیا کا ہر مشہور برانڈ ملے گا۔ گوچی، پراڈا اور بس جن کے نام ہم آپ نہیں جانتے، وہ تک یہاں نہ صرف موجود بلکہ مقبول بھی ہیں۔
ایک چیز جو میں نے بہت زیادہ دیکھی وہ یہاں جوگرز کا کلچر ہے۔ بوڑھا، جوان، جینز، کوٹ پینٹ، ٹریک سوٹ، کچھ بھی پہنا ہے، نیچے صرف جوگرز ہوں گے اور صحیح آرام دہ والے۔ روایتی عرب چپل اور فارمل جوتے یہاں بہت کم نظر آئے۔
ایک بڑی وجہ اس کی شاید یہ ہے کہ ہر بندہ کام پر ہے اور کام بہرحال آرام دہ جوتوں سے ہوتا ہے۔ مقامی نوجوانوں کی بڑی تعداد مختلف پراجیکٹس میں باقاعدہ شامل کی جا رہی ہے۔ جدھر دیکھیں آپ کو بالکل 18 یا 20 سال کے لڑکے لڑکیاں ڈیوٹی دیتے نظر آئیں گے۔
مثال کیا ہو ۔۔۔ جیسے پرانے جدہ کی ریسٹوریشن چل رہی ہے تو وہاں قدم قدم پہ لڑکے لڑکیاں موجود ہیں۔ مکہ میں پولیس ڈیوٹی پہ ہیں، شاپنگ مال زیادہ تر خواتین نے سنبھالے ہوئے ہیں، مرد سٹاف ہے لیکن غالب حصہ مالز میں اب خواتین کا نظر آتا ہے۔
اسی طرح جدہ میں آج کل پرانی آبادی یا جسے ہم کچی آبادی کہتے ہیں، وہ سب گرا کے ہر جگہ جدید انفراسٹرکچر کھڑا کیا جا رہا ہے۔ اسے ’جدہ فیس لفٹ پراجیکٹ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ تو اس پراجیکٹ میں بھی جہاں آپ جائیں گے مقامی عرب بچے زیادہ اور غیر ملکی کم نظر آتے ہیں۔
حکومت نہایت سنجیدگی سے نوجوانوں کے لیے اقدامات کر رہی ہے کہ دفاتر میں زیادہ سے زیادہ عملہ سعودی عرب کے پڑھے لکھے یا ہنرمند افراد کا ہو اور ساری باگ ڈور وہی سنبھالیں۔
غیرملکی آتے ہیں، بھاری مشاہرے مقرر ہوتے ہیں لیکن اگر کسی فیلڈ کے ماہر خود سعودی عرب میں موجود ہیں تو انہیں پرکشش تنخواہوں پر اپنے ملک میں کام کرنے کی آفر موجود ہوتی ہے۔
ڈویلپمنٹ کے پراجیکٹس میں بھی اگر کوئی مقامی شہری کام کرنا چاہے تب بھی اس کے لیے بہت سہولیات ہیں۔
ٹریفک لائٹ توڑنے کا چالان 3500 ریال ہے، عبدالکریم صاحب کے مطابق۔ وہ بنگالی ہیں اور ٹیکسی چلاتے ہیں۔ تو وہ بولتے ہیں کہ بابا اب جرات کس میں ہے جو قانون توڑے۔ نتیجہ یہ ہے کہ لائنیں سڑک پہ جتنی مرضی لمبی ہوں، سگنل توڑنے کی جرات کوئی نہیں کرتا۔
ایک کانسیپٹ جو میرا خود بہت زیادہ بنا ہوا تھا وہ یہ کہ مقامی لوگ ہم جیسوں کو خاص پسند نہیں کرتے لیکن یہ اس بار غلط نکلا۔ سڑکوں پر، مالز میں، ساحل پہ ۔۔۔ جدھر مرضی گیا، جہاں دل کیا تصویر بنائی، لوگوں سے کوئی معلومات لینی ہوئیں تو بات کی، معاملہ سکون والا تھا اور خوش اخلاقی برابر تھی۔ اس چیز کو دیکھ کے مجھے لگا کہ مغرب یا بعض اوقات انڈیا جیسی فلمیں ہمارے لیے بناتا ہے ویسی شاید ان کے لیے بھی بنتی ہیں۔ یہ ایک نہایت ایماندارانہ ذاتی تجربہ ہے۔
ریاست اپنے شہریوں کا خیال کیسے رکھتی ہے اس کی ایک معمولی سی مثال، ابوالحسن علی، جو یہاں کنگ فہد یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں، انہوں نے یہ بتائی کہ ابھی جب بارشیں ہوئیں اور جدہ میں کئی علاقے پانی کی نذر ہو گئے تو حکومت نے ایک ویب سائٹ بنا دی اور کہا کہ بھئی جن گاڑیوں کی انشورنس میں یہ بارش والے نقصانات کور نہیں ہو سکتے تو ان کے مالک بس یہ کریں کہ تخمینہ لگوا کر ویب سائٹ پہ درج کر دیں، گورنمنٹ ان گاڑیوں کی مرمت یا نقصان وغیرہ کا خرچہ پورا کرے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ابوالحسن کی رائے یہ ہے کہ استاد بندہ دنیا بھر میں کہیں اور پیدا ہونے کی بجائے ادھر کا شہری پیدا ہو جائے تو اس سے بڑی موج کوئی نہیں!
جرم کی شرح بہت کم ہے اور اسی وجہ سے کوئی خاص پولیس بھی دکھائی نہیں دیتی۔ پرسکون طریقے سے پورا شہر آٹو موڈ پہ لگا ہوا ہے اور سارے کام چل رہے ہیں۔
ایک لائن میں اگر مجھ سے پوچھیں تو 2030 تک جدہ دبئی کی جگہ لے چکا ہو گا اور سعودی عرب ٹورازم انڈسٹری میں سردی سے اکتائے لوگوں کے لیے ٹاپ تھری ڈیسٹینیشنز میں سے ایک ہو گا!