عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں 80 فیصد سے زائد بالغ افراد جسمانی طور پر متحرک نہیں ہیں۔ ان میں سے ایک بہت بڑی تعداد خواتین کی ہے۔ سعودی عرب نے عالمی ادارہ صحت کی اس تنبیہ کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے خواتین کی جسمانی سرگرمی کو بڑھانے کے لیے سپورٹ پروگرام شروع کر رکھا ہے۔
نسرین حکیم اور ان کی دوست اشواق الحزمی جدہ میں واقع خواتین کے ایک سائیکلنگ کلب کی بانی ہیں۔ وہ ان خواتین میں شامل ہیں جنہوں نے اس سپورٹ پروگرام سے فائدہ اٹھایا ہے۔
بچپن میں نسرین باسکٹ بال اور والی بال کے میچز میں شریک ہوتی تھیں لیکن ان کے لیے آؤٹ ڈور کھیلوں میں شریک ہونا ممکن نہ تھا۔
عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے نسرین نے بتایا: ’میرے والد کے دوست جو کھیلوں پر کمنٹری کرتے تھے ہمارے گھر آتے تھے۔ ہمارا گھر ایک سپورٹس سینٹر کی طرح تھا۔ اس طرح میرے دماغ میں خواتین کے سائیکلنگ کلب کا خیال آیا اور مجھے بچپن سے ہی اس کھیل کا شوق ہو گیا۔‘
نسرین کا مزید کہنا تھا کہ ’ورزش کرنے سے میری ذہنی صحت بھی بہتر ہوئی ہے۔ میں کچھ نجی مسائل کی وجہ سے تناؤ کا شکار تھی۔ میرے پاس اس وقت سائیکل نہیں تھی اور میں کرائے کی سائیکل چلایا کرتی تھی۔‘
20km Cycling Ride with the BRAVES!
— Brave Cyclist | فريق الشجاعة (@bravecyclists) July 8, 2021
7/7/2021
Monday pic.twitter.com/XfPrkwxIJe
چند سال قبل تک سعودی عرب میں خواتین کے آؤٹ ڈور کھیلوں پر قوانین اور روایات کے علاوہ سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے بھی مواقع نہیں تھے۔ نسرین اور اشواق اپنے پسندیدہ کھیل کی کہانی بتاتی ہیں۔ ان کے مطابق ان کی کئی دوستوں کو بھی ایسے ہی مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سعودی عرب میں 2016 کے بعد سے اور 2030 کے اصلاحاتی پروگرام کے تحت خواتین کی صلاحیتوں پر بھرپور توجہ دی جا رہی ہے۔ خواتین سماجی اور معاشی شعبوں میں شریک ہیں جن میں کھیل بھی شامل ہیں۔
اس حوالے سے ضروری ڈھانچہ ابھی تک مکمل طور پر تیار نہیں ہو سکا اور جدہ کے اس سائیکلنگ کلب کو کئی طرح کے مسائل کا سامنا ہے جن میں زیادہ تر عوامی مقام پر سائیکل چلانے کی سہولت سے متعلق تھے۔
مثال کے طور پر سڑکوں اور گلیوں میں سائیکل چلانے کے لیے مختص جگہ موجود نہیں تھی۔ ڈرائیونگ کے قوانین بھی غیر واضح تھے لیکن سعودی خواتین کی دلچسپی کی بدولت 2015 کے بعد سے سعودی عرب میں خواتین کی کھیلوں میں شمولیت کی شرح 150 فیصد تک بڑھ چکی ہے۔