ریکوڈک معاہدہ: ’بلوچستان کے لیے 25 فیصد حصہ قابلِ قبول نہیں‘

وفاقی اور بلوچستان حکومتوں میں شامل بلوچستان نیشنل پارٹی اور جمیعت علمائے اسلام جیسی جماعتوں نے بھی ریکوڈک معاہدے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی ریکوڈک معاہدے کو قانونی قرار دے دیا ہے (اے ایف پی)

پاکستان کی وفاقی اور بلوچستان حکومتوں کا بیرک گولڈ کارپوریشن کے ساتھ ریکوڈک منصوبہ سے متعلق مشترکہ معاہدہ، جسے سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی قانونی قرار دیا ہے، پر بلوچستان کی بعض سیاسی جماعتیں تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں۔  

وفاق اور صوبے میں نمائندگی رکھنے والی بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) ریکوڈک معاہدے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے علیحدگی کی دھمکی بھی دے چکی ہے۔  

بلوچستان میں چند دوسری جماعتیں بھی اس معاہدے پر اپنے تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں، جن میں نیشنل پارٹی بھی شامل ہے، جو معاہدے میں بلوچی عوام کے حقوق کے تحفظ پر زور دیتی ہیں۔

نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات اسلم بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کسی وفاقی اکائی میں پائے جانے والے قدرتی وسائل پر اس صوبے کا حق ہوتا ہے، اس لیے ہر معاہدہ متعلقہ حوالے سے ہونا چاہیے۔

اسلم بلوچ کا کہنا تھا کہ 18ویں ترمیم میں قدرتی وسائل متعلقہ صوبے اور وفاق کے درمیان برابر (50، 50 فیصد) تقسیم ہوتے ہیں، لیکن اسلام آباد صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ریکوڈک اپنے قبضہ میں لے کر کمپنی سے اپنی مرضی کا معاہدہ کیا اور 25 فیصد بلوچستان کے لیے مختص کیا جو قابل قبول نہیں ہے۔ 

ادھر جماعت جمعیت علمائے اسلام کے بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ملک سکندر ایڈووکیٹ نے منگل کو صوبائی اسمبلی میں ریکوڈک کے حوالے سے منظور ہونے والی قرارداد سے متعلق خطاب میں کہا کہ ایوان کو بائی پاس کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا: ’قرارداد لانے سے پہلے تمام اراکین کو اس کا مسودہ دیا جاتا تاکہ وہ اسے پڑھ سکتے اور تب یہ ایوان میں پیش کی جاتی۔‘

ملک سکندر نے مزید کہا کہ جس قرارداد یا ایکٹ کو اسمبلی اراکین نے پڑھا ہی نہ ہو، اسے متعلقہ کمیٹی کے پاس بھی نہیں بھیجا گیا ہو، تو اسے کس طرح قانون کہا جا سکتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 144 کے تحت صوبائی اسمبلی وفاق کو منتقل کیے گئے اختیارات واپس لینے کا اختیار حاصل ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’گزشتہ اجلاس میں ریکوڈک سے متعلق منظور کی گئی آئینی قرارداد سے بداعتمادی پیدا ہوئی ہے، نقصان بلوچستان کو ہو گا، اس لیے اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا جائے۔‘ 

بلوچستان اسمبلی نے دس دسمبر کو ریکوڈک کے حوالے سے ایک قرارداد میں آئین کے آرٹیکل 144 کے تحت پارلیمانِ پاکستان کو صوبائی اسمبلی کے منظور کردہ قوانین بشمول بلوچستان ڈویلپمنٹ اینڈ مینٹیننس آف سٹرکچر سیس ایکٹ 2021، بلوچستان ورکرز ویلیفیئر فنڈ ایکٹ 2022 اور بلوچستان ایکسائر ڈیوٹی ان منرلز ( لیبر ویلفیئر ایکٹ 1967) میں ترامیم کرنے کا اختیار دیا۔

وزیراعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت منگل کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ریکوڈک معاہدے کا خیرمقدم کیا گیا، منصوبہ کی تنظیم نو پر بھی تفصیلی بحث ہوئی۔

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ حکومت پاکستان ریکوڈیک منصوبے سمیت سرمایہ کاری کے دیگر تمام منصوبوں میں سرمایہ کاروں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے گی اور اُن سے کیے گئے تمام وعدے پورے کیے جائیں گے۔  

وفاقی کابینہ نے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے گیارہ دسمبر کے اجلاس میں منظور کئے گئے ریکوڈک پراجیکٹ فنڈنگ پلان کی بھی توثیق کی۔ 

وفاقی کابینہ نے ریکوڈک منصوبے کی حتمی معاہدے پر دستخط کرنے کی باضابطہ منظوری بھی دی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان