ایک جرمن عدالت نے نازی کیمپ کی سابق سیکریٹری کو دس ہزار سے زیادہ لوگوں کے قتل میں ملوث ہونے کا مجرم قرار دیا۔
منگل کو ہونے والی یہ عدالتی کارروائی جرمنی کا آخری ہولوکاسٹ مقدمہ ہو سکتا ہے۔
پریزائڈنگ جج ڈومینک گراس نے 97 سالہ ارمگارڈ فرچنر کو دو سال کی معطل سزا سنائی۔ پراسیکیوٹرز نے اس جرم کو مقبوضہ پولینڈ کے سٹتھوف کیمپ میں قیدیوں کا ’ظالمانہ اور بدنیتی پر مبنی قتل‘ قرار دیا تھا۔
کمرہ عدالت میں وہیل چیئر پر موجود ارمگارڈ فرچنر نے سفید ٹوپی اور میڈیکل ماسک پہن رکھا تھا، جب جج ڈومینک گراس نے انہیں ہزاروں افراد کے قتل کا مجرم قرار دیا۔
وہ کئی دہائیوں سے چلنے والے مقدمات میں پہلی خاتون تھیں، جن پر نازی دور کے جرائم کے لیے جرمنی میں مقدمہ چلایا گیا۔
جج نے اس موقع پر کہا: ’اس مقدمے میں انصاف انتہائی تاخیر سے ہوا اور صرف اس وجہ سے کہ مدعا علیہ خوش قسمت رہیں کہ انہوں نے لمبی عمر پائی۔‘
ارمگارڈ فرچنر نے عدالت کو بتایا: ’ماضی میں جو کچھ ہوا، اس کے لیے مجھے افسوس ہے۔‘
جس پر جج نے افسوس کا اظہار کیا کہ انہوں نے سٹتھوف میں گزارے گئے اپنے وقت کا مکمل حساب نہیں دیا۔
جج نے قرار دیا کہ وہ پولینڈ کے نازی کیمپ میں قیدیوں کے انتہائی خراب حالات سے آگاہ تھیں۔
انہوں نے کہا: ’قیدیوں کے قریب، ہر طرف لاشوں کی بدبو تھی۔‘
جج نے اسے ناقابل تصور قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’ملزمان نے اس پر توجہ نہیں دی۔‘
ارمگارڈ فرچنر عدالتی کارروائی، جو ستمبر 2021 میں شروع ہونے والی تھی، سے بچنے کے لیے ریٹائرمنٹ ہوم سے فرار ہو گئی تھیں۔
تاہم پولیس سے بچنے میں کئی گھنٹوں تک کامیاب رہنے کے بعد انہیں قریبی شہر ہیمبرگ سے گرفتار کر لیا گیا تھا۔
ارمگارڈ فرچنر ایک نوعمر لڑکی تھیں، جب انہوں نے ان جرائم کا ارتکاب کیا تھا اور اسی لیے ان پر نابالغوں کے لیے مختص عدالت میں مقدمہ چلایا گیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پراسیکیوٹرز نے بتایا کہ آج کے پولش شہر گڈانسک کے قریب کیمپ میں ایک اندازے کے مطابق 65 ہزار افراد ہلاک ہوئے جن میں یہودی قیدی، پولینڈ کے حامی اور سوویت کے جنگی قیدی بھی شامل تھے۔
ارمگارڈ فرچنر کو جون 1943 اور اپریل 1945 کے درمیان کیمپ میں ملازمت دی گئی اور اس دوران انہوں نے کیمپ کمانڈر پال ورنر ہوپ کی خط و کتابت کا انتظام سنبھالا جب کہ ان کے شوہر کیمپ میں نازی افسر تھے۔
پبلک پراسیکیوٹر میکسی وانٹزن نے ارمگارڈ فرچنر کے لیے دو سال کی معطل سزا کی درخواست کی تھی۔
وانٹزین نے کہا کہ ’یہ مقدمہ انتہائی تاریخی اہمیت کا حامل ہے اور ممکنہ طور پر، وقت گزرنے کی وجہ سے، اپنی نوعیت کا آخری مقدمہ بھی ہے۔‘
کیمپ سے زندہ بچ جانے والوں نے اس مقدمے کی سماعت کے دوران اپنے مصائب کے بارے میں بیانات درج کروائے تھے۔
جج نے ان کی گواہی کے لیے ان کا شکریہ ادا کیا اور یہ تسلیم کیا کہ ان کے لیے اپنی یادوں کو تازہ کرنا ایک ’تکلیف دہ عذاب‘ تھا۔
امریکہ میں مقیم تین زندہ بچ جانے والے متاثرین کی نمائندگی کرنے والے وکیل سٹیفن لوڈے نے کہا کہ وہ اس فیصلے سے مطمئن ہیں۔
انہوں نے کہا: ’قانون کی حکمرانی کے تحت ہماری ریاست نے ان تمام دہائیوں میں اس معاملے پر مقدمہ چلایا اور یہ پیغام بھیجا کہ قتل یا قتل سے متعلق کسی قسم کی معاونت کے لیے کوئی رعایت نہیں ہے۔‘