جرمنی کی عدالت نے 100 سالہ شخص کے خلاف مقدمے کی سماعت کا اعلان کیا ہے جن پر الزام ہے کہ انہوں نے جنگ عظیم دوم کے دوران برلن کے مضافات میں قائم حراستی مرکز میں بطور محافظ تین ہزار 518 افراد کے قتل کا سامان کیا تھا۔
پیر کو نیروپین کی ریاستی عدالت کے ترجمان نے بتایا ہے کہ مقدمے کی سماعت اکتوبرکے آغاز میں شروع ہوگی۔ جرمن پرائیویسی لاز کی وجہ سے صد سالہ ملزم کا نام ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔
ملزم پر الزام ہے کہ اس نے 1942 اور 1945 کے درمیان سچسن ہاؤسین حراستی مرکز میں میں نازی پارٹی کے نیم فوجی ونگ کے ایک اندراج شدہ رکن کے طور پر کام کیا تھا۔
حکام کا کہنا ہے کہ بڑھاپے کے باوجود ملزم مقدمہ چلانے کے لیے کافی صحت مند سمجھا جارہے ہیں البتہ عدالت فی یوم سماعت کے دورانیے کو محدود رکھ سکتی ہے۔
نیروپین کے دفتر کو یہ مقدمہ 2019 میں لڈوگسبرگ میں واقع خصوصی وفاقی پراسیکیوٹر کے دفتر نے نازی دور کے جنگی جرائم کی تحقیقات کے لیے سونپا تھا۔
نیوروپین میں ریاستی عدالت اورینین برگ قصبے کے شمال مغرب میں واقع ہے جہاں سچسن ہاؤسین واقع تھا۔
مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق ملزم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ برلن سے باہر برینڈن برگ ریاست میں رہتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سچسن ہاؤسین 1936 میں برلن کے بالکل شمال میں پہلے نئے کیمپ کے طور پر قائم کیا گیا تھا جب ایڈولف ہٹلر نے ایس ایس کو نازی حراستی کیمپ کے نظام کا مکمل اختیار دیا تھا۔ اس کا مقصد بھولبلییا کے نیٹ ورک کے لیے ایک مثالی سہولت اور تربیتی کیمپ مہیا کرنا تھا جسے نازیوں نے جرمنی، آسٹریا اور مقبوضہ علاقوں میں بنایا تھا۔
1936 اور 1945 کے درمیان وہاں دو لاکھ سے زیادہ افراد قید تھے۔ وہاں ہزاروں قیدی بھوک، بیماری، جبری مشقت اور دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ طبی تجربات اور ایس ایس کی منظم پر تشدد کارروائیوں سے ہلاک ہو گئے تھے جن میں گولیاں مارنا، لٹکانا اور گیسنگ شامل ہے۔