وزیر اعظم عمران خان پر اکثر تقریروں کے بعد ایسی باتیں کرنے پر تنقید ہوتی ہے جن کی بنیاد غلط معلومات ہوتی ہیں۔ اس کی بڑی وجہ ان کا تحریری تقریر پڑھنے سے انکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی حلف برداری کی تقریب میں بھی وہ لکھا ہوا حلف کئی مرتبہ غلط بول گئے۔
عمران خان غالباً پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلے وزیر اعظم ہیں جو لکھی ہوئی تقریر کے بجائے ہمیشہ زبانی یعنی فی البدیہہ تقریر کرتے ہیں۔ پاکستان ٹیلی وژن نیوز کے حکام کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے گذشتہ ایک سال کے دوران قوم سے کیے گئے متعدد خطابات فی البدیہہ ریکارڈ کرائے۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے میڈیا یوسف بیگ مرزا نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وزیراعظم عمران خان لکھی ہوئی تقریر نہیں پڑھتے اور نہ اُن کا کوئی باقاعدہ ’سپیچ رائٹر‘ موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’البتہ یہ ضرور ہے کہ تقریر سے پہلے وزیر اعظم مشاورت کر لیتے ہیں کہ ان موضوعات پر بات کی جا سکتی ہے، لیکن پوائنٹس بھی وہ خود ہی بناتے ہیں۔‘
پاکستانی وزرا اعظم کی تاریخ اور تقاریر
عمران خان کے برعکس ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر شاہد خاقان عباسی تک جتنے بھی وزیراعظم گزرے ہیں انہوں نے اپنی تقاریر کے لیے ہمیشہ سپیچ رائٹرز کی خدمات حاصل کی ہیں۔
سینیئر پارلیمانی صحافی خالد محمود نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ عمومی طور پر ایسا ہوتا ہے کہ جب وزیراعظم نے جلسہ کرنا ہو یا پریس کانفرنس کرنی ہو تو وہ اپنے مشیروں کو آئیڈیا دیتے ہیں کہ اس موضوع پر تقریر کرنی ہے تو تقریر نویس اپنی تحقیق کے بعد تقریر لکھتے ہیں جس میں متعلقہ حاضرین و ناظرین کی ذہنی سطح کے مطابق گفتگو تیار کی جاتی ہے۔ جلسہ ہو تو اُس علاقے کے مسائل تقریر کا موضوع ہوتے ہیں۔‘
پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو پر تحقیق اور پی ایچ ڈی کرنے والے پہلے سکالر ڈاکٹر عابد عباسی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ذوالفقار علی بھٹو بنیادی طور پر پروفیسر تھے اور امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں پڑھایا بھی کرتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم بننے سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو نے تین کتابیں لکھی تھیں۔ ڈاکٹر عباسی کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو بھی زیادہ تر فی البدیہہ تقریر کرتے تھے تاہم وہ اپنے مشیروں سے مشاورت ضرور کرتے تھے۔ اُن کے مشیروں کی ٹیم میں نوائے وقت لندن سے منسلک بشیر ریاض، مولانا کوثر نیازی، مبشر حسن اور حفیظ پیرازدہ شامل تھے۔
پارلیمانی امور کے سینیئر صحافی ارشد وحید چوہدری کے مطابق ہر وزیراعظم نے اپنی تقاریرکو دلچسپ بنانے کے لیے تقریر نویسوں کی خدمات حاصل کی ہیں، جیسے اظہار امروہی بےنظیر بھٹو اور یوسف رضا گیلانی کے لیے تقاریر لکھا کرتے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اظہار امروہی کو پارلیمانی امور سے بخوبی آگاہی کے سبب مشیر کے عہدے پر بھی تعینات کیا گیا تھا۔
ارشد وحید چوہدری نے کہا کہ فرحت اللہ بابر آصف علی زرداری کے لیے تقاریر لکھتے ہیں۔ نذیر ناجی 90 کی دہائی میں نواز شریف جبکہ بعد ازاں پرویز مشرف کے لیے تقاریر لکھتے رہے تاہم وہ کسی عہدے پر تعینات نہیں تھے لیکن اپنی خدمات کا معاوضہ لیتے تھے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ گذشتہ دور حکومت میں کالم نگار عرفان صدیقی سابق وزیراعظم نواز شریف کے لیے چار سال تقاریر لکھتے رہے۔ ’ان کی شخصیت کا کمال ہی تھا کہ نواز شریف کی تقریروں سے بھی ادب جھلکتا تھا۔ ان کی سابق وزیر اعظم نواز شریف سے قربت نے ہی انہیں مشیر کے عہدے پر بھی پہنچایا۔ نواز شریف کے بعد عرفان صدیقی شاہد خاقان عباسی کے لیے بھی لکھتے رہے تاہم وہ اس عرصے کے دوران گوشہ گمنامی میں ہی رہے۔‘
کیا وزیراعظم عمران خان اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں لکھی ہوئی تقریر پڑھیں گے؟
سفارتی ذرائع نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ اہم سفارتی دوروں پر دفتر خارجہ کے افسران وزیراعظم کو مکمل بریفنگ بھی دیتے ہیں اور پوائنٹس بھی لکھ کر دیتے ہیں لیکن جب وزیراعظم عمران خان بولتے ہیں تو اپنی مرضی سے بولتے ہیں۔
جب اُن سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا وزیراعظم عمران اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں لکھی ہوئی تقریر پڑھیں گے تو انہوں نے جواب دیا کہ ’ابھی یہ طے نہیں ہوا کہ وزیراعظم عمران خان اقوام متحدہ جنرل اسمبلی جائیں گے یا نہیں۔ لیکن اگر جائیں گے تو دفتر خارجہ جنرل اسمبلی کے موضوعات کے مطابق تقریر لکھ کر دے گا اب وزیراعظم کی مرضی کہ وہ پڑھتے ہیں یا نہیں۔‘
فی البدیہہ تقریر کے نقصانات؟
سینیئر صحافی خالد محمود نے کہا کہ فی البدیہہ تقریر کرنے کے نقصانات بھی ہیں جیسے کہ وزیراعظم عمران خان نے غزوہ بدر کے بارے میں کم معلومات ہونے کی بنا پر تاریخ کا ایسا بیان دیا جس پر تنقید ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ اسی طرح وزیراعظم نے دوسری جنگ عظیم میں جاپان اور جرمنی کی سرحدیں ملا دی تھیں۔
سینیئر صحافی ارشد وحید چوہدری نے کہا: ’جب مختلف موضوعات پر مکمل عبور حاصل نہ ہو اور محض سطحی معلومات ہوں تو غلطی کا احتمال موجود رہتا ہے اور ڈیجیٹل میڈیا کے دور میں الفاظ منہ سے بعد میں نکلتے ہیں ریکارڈ پہلے ہو جاتے ہیں تب غلطی کی اصلاح کی گنجائش بھی باقی نہیں رہتی۔‘
انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی فورمز پر کہی ہوئی باتوں پر ’یو ٹرن بھی نہیں لیا جا سکتا۔‘