’ایک تو بم دھماکے کر کے دہشت گردی کی جاتی ہے لیکن میں اس کو ڈیجیٹل دہشت گردی کہتا ہوں کہ آپ کسی کی محنت کو غیر قانونی طریقے سے چرا کر اس کا غلط استعمال کریں اس کے باوجود کہ آپ تعلیم یافتہ طبقے سے تعلق رکھتے ہوں۔‘
یہ کہنا تھا پشتو کے معروف گلوکار کرن خان کا جو پاکستان میں کاپی رائٹس قوانین کی کمی اور پہلے سے موجود قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے سے پریشان ہیں۔
کرن خان بنیادی طور پر پشتو زبان میں گلوکاری کرتے ہیں جبکہ کچھ گیت وہ اردو زبان میں بھی گا چکے ہیں۔ ان کا شمار پشتو ہنر سے تعلق رکھنے والے تعلیم یافتہ گلوکاروں میں ہوتا ہے۔
حال ہی میں کرن خان نے پشاور یونیورسٹی کے شعبہ پشتو سے پشتو موسیقی میں اپنی پی ایچ ڈی مکمل کی ہے جبکہ وہ پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں اپنے فن کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔
تاہم ان کو گلہ ہے کہ جس کام پر وہ خوب محنت کرتے ہیں، اس کو چُرایا جاتا ہے یا دوبارہ پروڈیوس کر کے نشر کیا جاتا ہے اور اس سے ان کو ٹھیس پہنچتی ہے۔
کرن خان نے بتایا کہ ’ایک ایک پراجیکٹ اور گیت کو لکھنے، کمپوز کرنے اور اس کی تیاری میں جو وقت اور محنت درکار ہوتی ہے، وہ بہت کم لوگوں کو پتہ ہے لیکن یہاں بعض لوگ اسی گیت کو اٹھا کر اپنی ہی یوٹیوب چینل یا کسی بھی سوشل میڈیا اکاونٹ پر بغیر اجازت کے اپلوڈ کردیتے ہیں جس سے دکھ پہنچتا ہے۔‘
کرن خان اپنا تمام تر مواد آسٹریلیا کی ایک کمپنی کے ساتھ معاہدہ کر کے کاپی رائٹس قوانین کے تحت محفوظ کر دیا ہے اور ان کے مواد کو کسی بھی طریقے سے چرا کر یا ری پروڈیوس کر کے چلانے سے اسی کمپنی کی طرف سے مذکورہ شخص کو قانونی نوٹس دیا جاتا ہے۔
تاہم اس کے باوجود کرن کے مطابق یہاں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو باقاعدہ قانونی طریقہ کار اپنا کر اور کاپی رائٹس والی کمپنی کو پیسے دے کر اپنا مواد محفوظ کر دیتے ہیں لیکن مختلف طریقوں سے اب بھی ان کا دعویٰ ہے کہ ان کا مواد چوری کیا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’میرے اپنے یوٹیوب، فیس بک، سپوٹیفائی، ساونڈ کلاؤڈ سمیت تمام موسیقی سے جڑے موبائیل اپلیکشنز پر اکاؤنٹس موجود ہے لیکن بعض لوگ میری موسیقی کی آواز کو تھوڑا کم کر کے اور اس میں کچھ تبدیلی کر کے جب اپلوڈ کرتے ہیں، تو کاپی رائٹس لاگو کرنے والی کمپنی کو پتہ نہیں چلتا، اور یوں اسی سے مجھے نقصان پہنچتا ہے۔‘
کرن خان نے بتایا: ’میں اپنے تمام تر مواد ذاتی چینلز پر اپلوڈ کرتا ہوں اور میرے چاہنے والوں کے لیے آسانی ہوتی ہے کہ وہ میرے چینل پر آکر اچھی کوالٹی میں میرے گانے اور دیگر مواد دیکھ سکیں لیکن مواد چرانے سے نقصان یہ ہوتا ہے، کہ میرے چاہنے والے تقسیم ہوجاتے ہیں۔‘
پاکستان میں کاپی رائٹس قوانین کی خلاف ورزیوں کا شکار صرف کرن خان نہیں ہیں بلکہ کئی آرٹسس اور موسیقار اس حوالے سے شکوہ کناں نظر آتے ہیں۔
کاپی رائٹس صرف گانے اور ویڈیوز تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ کسی بھی پرنٹ مواد کو چوری کر کے اس کو اپنے نام سے یا کسی بھی نام سے شائع کرنا اور کسی بھی طریقے سے استعمال کرنا کاپی رائٹس قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
کاپی رائٹس کیا ہے؟
کاپی رائٹس قوانین کا آغاز تب ہوا جب پرنٹنگ پریس ایجاد ہوا اور دنیا میں سب سے پہلا کاپی رائٹس قانون برطانیہ میں 1709 میں ’سٹیٹس آف آنی‘ کے نام سے جاری ہوا تھا۔
امریکہ میں کاپی رائٹس قوانین پر عمل درامد کے لیے پہلا دفتر 1790 میں کھولا گیا اور اب اسی دفتر میں تقریبا چار سو ملازمین اسی پر کام کرتے ہیں کہ امریکہ میں کاپی رائٹس قوانین پر عمل درآمد کیسے ممکن بنایا جا سکے۔
اسی دفتر کی کاپی رائٹس تعریف کے مطابق کاپی رائٹس وہ قانونی حق ہے جو کسی بھی لکھاری، یا کسی چیز کے بنانے والے کو ان کے کام کو محفوظ کرنے کا حق دیتا ہے۔
اس کی سادہ مثال یہی ہے کہ اگر آپ نے کسی اخبار میں کوئی کالم لکھا ہے اور وہ آپ کے نام سے چھپ گیا ہے، تو کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ یہ کالم وہ اپنے نام سے شائع کرے یا اسی کالم میں تبدیلی کر کے کسی بھی نام سے شائع کرے۔
امریکہ کے کاپی رائٹس دفتر کے مطابق کاپی رائٹس قوانین میں مختلف کاموں کو دیکھا جاتا جیسا کہ ان میں پینٹنگ، عکاسی، السٹریشنز، میوزیکل کمپوزیشن، صوتی ریکارڈنگ، کمپیوٹر پروگرامز، کتاب، نظمیں، بلاگز، فلمیں، ڈرامے، اور دیگر مواد شامل ہے۔
امریکہ میں موجودہ صورت حال میں 1978 کے بعد کے مواد شائع ہونے پر کاپی رائٹس قانون لوگو ہوتا ہے اور کسی بھی مواد کے اوریجنل اونر کی موت کے بعد 70 سال تک ان پر کاپی رائٹس قانون لاگو ہوگا۔
پاکستان میں کاپی رائٹس قوانین
پاکستان میں بھی کاپی رائٹس قوانین موجود ہیں لیکن شاید اس حوالے سے بہت کم لوگوں کو علم ہو کہ برصغیر میں کاپی رائٹس کا پہلا قانون کاپی رائٹس ایکٹ 1914 نافذ کیا گیا تھا جو اصل میں برطانیہ میں رائج 1911 کے کاپی رائٹس ایکٹ سے مطابقت رکھتا تھا۔
تاہم بعد میں کاپی رائٹ ایکٹ 1914 میں ترامیم کر کے 1962 میں کاپی رائٹ آرڈیننس کے نام سے ایک قانون پاس کیا گیا اور اسی آرڈیننس میں بعد میں 1992 میں ترمیم کی گئی۔
پاکستان میں کاپی رائٹس قانون میں 1992 میں ترمیم کی گئی اور اسی قانون کے تحت کاپی رائٹس مواد کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جس میں ایک ادب یا لکھے ہوئے مواد اور دوسرا کسی آرٹ ورک، ریکارڈنگ اور فلم یا ڈراما شامل ہیں۔
اس قانون کے تحت ایک کاپی رائٹ رجسٹرار دفتر بھی موجود ہے۔ تاہم پاکستان میں کاپی رائٹس کے حقوق حاصل کرنے کے لیے کاپی رائٹس رجسٹرار کے پاس کسی قسم کی رجسٹریشن ضروری نہیں ہے بلکہ جس کسی نے بھی کوئی بھی چیز لکھی یا تخلیق کی تو وہ اس کا مالک بن جاتا ہے اور اس پر پاکستان کاپی کے رائٹس قوانین کا اطلاق ہو جاتا ہے۔
پاکستان میں کسی بھی مواد پر کاپی رائٹس قانون تب لاگو ہوگا، جب تک اس مواد کا بنانے والا زندہ ہے اور اس کی موت کے بعد 50 سال تک یہی کاپی رائٹس قانون لاگو ہوگا یعنی اس عرصے میں مرے ہوئے کسی شخص کا مواد بغیر اجازت کے کوئی دوسرا شخص شائع یا اپے نام سے دوبارہ شائع نہیں کر سکتا۔
اسی طرح پاکستان کاپی رائٹس ایکٹ کے تحت کسی سینیما کے لیے بننے والا ڈرامہ یا فلم پر اس کے بننے کے بعد 50 سال تک کاپی رائٹس قانون لاگو ہوگا او اس کے بعد اس کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اسی قانون کے تحت کاپی رائٹس قوانین کی خلاف ورزی پر چھ سے تین سال تک سزائیں بھی مقرر کی گئی ہیں لیکن اس ایکٹ کی شق میں لکھا گیا ہے کہ اگر کسی شخص نے یہ بتایا کہ ان کو پتہ نہیں تھا کہ وہ کسی اور کا مواد استعمال کر رہے ہیں، تو اس صورت پر سزا کی حد مقرر نہیں ہو گی۔
ماہرین کے مطابق پاکستان کے یہ کاپی رائٹس قانون بہت کمزور ہیں اور اس پر عمل درامد بھی نہ ہونے کے برابر ہے اور اس قانون میں مزید ترمیم اور اس کو سخت کرنے کی ضرورت ہے۔
ماہرین کیا کہتے ہیں؟
طارق افغان پشاور ہائی کورٹ کے وکیل ہیں اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بہت متحرک ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کوبتایا کہ پاکستان میں کاپی رائٹس ایکٹ بہت پرانا ہے اور اس میں آخری ترمیم 2000 میں کی گئی ہے اور یہ جدید دور کے تقاضوں کے مطابق نہیں ہے۔
طارق افغان نے بتایا کہ ’آج کل کے جدید اور ڈیجیٹل دور میں کاپی رائٹس قوانین کی بہت خلاف ورزی ہوتی ہے لیکن اس حوالے سے قانون واضح نہیں ہے۔ خاص کر گانے اور شاعری کا مواد چوری کر کے لوگ اپنے نام سے یا بغیر اجازت کے شائع کر دیتے ہیں۔‘
طارق افغان نے بتایا کہ ’کاپی رائٹس قوانین کے لیے دفاتر اسلام آباد اور کراچی میں ہیں اور اس حوالے سے علاقائی دفاتر موجود نہیں ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کی کاپی رائٹس شکایات درج کرنے میں بھی مشکلات پیش آتی ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ ’عوام میں اس قانون کے حوالے سے آگاہی بھی نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ اس کا کوئی ذکر ہی نہیں کرتا۔ میں سمجھتا ہوں اس قانون کو لاگو کرنے کے دیگر مسائل کی طرح مخصوص عدالتیں بھی ہونی چاہییں تاکہ اس قسم کے مقدمات کا سامنا آسانی سے کیا جا سکے۔‘
طارق افغان کے مطابق آج کے سوشل میڈیا دور میں رسالے، اخبار اور دیگر مواد آن لائن موجود ہوتا ہے اور اب مواد بہت آسانی سے چوری ہوسکتا ہے اور اس کا غیر قانونی استعمال بہت عام ہے۔
اسی وجہ سے طارق افغان کے مطابق پاکستان کے موجودہ کاپی رائٹس قوانین میں ترامیم کی ضرورت ہے کیونکہ موجودہ قانون میں سوشل میڈیا کا ذکر ہی موجود نہیں ہے۔
طارق افغان نے تعلیم کے شعبے میں بھی کاپی رائٹس قوانین کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے بتایا کہ ’آج کل پاکستان میں تحقیق کے شعبے میں بھی چوری بہت عام ہوگئی ہے اور کوئی بھی شخص جا کر کسی کی تحقیق کو اٹھا کر اس پر اپنا نام لکھ دیتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’کاپی رائٹس قوانین میں تعلیم کے شعبے میں پلیجرزم کی شقیں بھی شامل کرنی چاہییں تاکہ کسی بھی شخص کی سالوں کی محنت کو کوئی چرا کر اس پر اپنا نام نہ لکھ سکے۔‘
اسد بیگ میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی نامی غیر سرکاری تنظیم کے سربراہ ہیں جو ڈیجیٹل حقوق کے حوالے سے کام کرتی ہے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’کاپی رائٹس قوانین پر عمل نہ کرنا نئی بات نہیں ہے کیونکہ ہم بچپن سے اسی کلچر میں پلے بڑھے ہیں۔‘
اسد بیگ نے بتایا کہ ’بچپن سے ہم نے دیکھا ہے کہ ہم گھروں میں، سکول، تعلیمی اداروں اور دفاتر میں غیر قانونی طریقے سے ونڈوز استعمال کرتے آ رہے جو ہمارے لیے بہت نارمل ہے لیکن بظاہر یہ کاپی رائٹس قوانین کی خلاف ورزی ہے۔‘
انہوں نے بتایا: ’اس کی وجہ پاکستان میں غربت بھی ہے کہ یہاں ایسا مواد ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں لیکن وہ عوام کی دسترس سے دور ہے اور میں نے جس طرح ونڈوز کی بات کی، تو ونڈوز کا لائنسنس ہر کسی کی بس کی بات نہیں ہے۔‘
تاہم ڈیجیٹل دنیا میں اگر کاپی رائٹس کی بات کی جائے تو اسد بیگ نے مطابق ’تمام ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے کاپی رائٹس قوانین بہت سخت ہیں حتیٰ کہ کاپی رائٹس کی خلاف ورزی پر وہ مواد بنانے والوں کے چینلز بھی بند کرتے ہیں اور پابندی عائد کر دیتے ہیں۔‘
اسد بیگ نے بتایا کہ ’پہلے سے پاکستان میں جو کاپی رائٹس قوانین موجود ہیں، اس میں ترامیم ضرور ہونے چاہئے لیکن پاکستان میں کسی بھی قانون کو بہتر بنانے کے نام پر قدغنیں لگائی جاتی ہیں۔ قوانین میں ترامیم ہونی چاہیے کاپی رائٹس کے نام پر مزید پابندیوں نہیں لگانے چاہیے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’مثال کے طور پر پاکستان میں ہالی ووڈ کی فلمیں غیر قانونی طور پر ٹورنٹ سے ڈاؤن لوڈ کی جاتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں ہالی ووڈ فلمیں ملتی نہیں تو لوگ مجبورا غیر قانونی طریقے سے یہ ڈاؤن لوڈ کرتے ہیں۔‘
اسد نے بتایا کہ ’اب یہ نہیں ہونا چاہیے کہ پاکستان میں ٹورنٹ بند کیا جائے، بلکہ حکومت کو ایسے اقدامات کرنے چاہییں جن سے سے عوام کو فائدہ بھی ہوں اور قانون پر عمل درآمد بھی ہو۔‘
عوام میں آگاہی کے حوالے سے ’اسد بیگ نے بتایا کہ کاپی رائٹس کے حوالے سے عوام میں آگاہی کی بہت ضرورت ہے۔‘