وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے جمعرات کو بتایا کہ حالیہ قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) کے اجلاس میں 'کسی دہشت گرد یا عسکریت پسند گروپ سے کوئی بات چیت نہیں کی جائے گی' کا فیصلہ ہوا ہے۔
این ایس سی پاکستان میں سیاسی اور فوجی قیادت پر مشتمل سیکورٹی کے معاملات پر رابطہ کاری کا سب سے بڑا فورم ہے، جس کی صدارت وزیراعظم کرتے ہیں۔
جمعرات کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران رانا ثنا اللہ سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کو 'امریکہ کو خوش کرنے کے لیے ٹی ٹی پی کے خلاف کھلے عام جنگ کا اعلان کرنے' کی دھمکی کے بارے میں دریافت کیا گیا۔
ٹی ٹی پی کے بیان میں واضح طور پر پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف کے نام کے ساتھ ساتھ ان کی متعلقہ جماعتوں کا ذکر ہے اور مذہبی جماعتوں کو 'ہمارے خلاف سرگرمیوں' سے خبردار کیا گیا ہے۔
گذشتہ روز وفاقی وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوششیں جاری ہیں لیکن گروپ کو پہلے قانون اور آئین کے سامنے ہتھیار ڈالنا ہوں گے۔
جمعرات کی پریس کانفرنس کے دوران رانا ثنا اللہ نے کہا: 'ان پر قانون کی پاسداری اور ریاست کو یقین دلانا کہ اس کی رٹ کو قبول کیا جا رہا ہے لازم ہے۔'
وفاقی وزیر نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی نے واضح طور پر فیصلہ کیا کہ 'کسی دہشت گرد یا عسکریت پسند گروپ کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں ہوگی۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی نے ضرورت پڑنے پر دوحہ معاہدے، جس میں افغان طالبان نے اپنی سرزمین کو دوسروں کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کا عزم کیا ہے، کی اہمیت پر زور دینے کی غرض سے افغان حکومت کے ساتھ بات چیت کرنے کا فیصلہ بھی کیا۔
'اگر اس پر عمل ہو جاتا ہے تو پاکستان اور دیگر ممالک میں دہشت گردی کا مسئلہ حل ہو جائے گا اور افغانستان اپنے وعدے کی پاسداری کرے تو پاکستان محفوظ رہے گا۔'
گذشتہ کچھ عرصے میں پاکستان میں دہشت گردی کے حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے، جنہیں عموماً افغانستان میں موجود کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے جوڑا جاتا ہے۔
ٹی ٹی پی نے 28 نومبر کو جنگ بندی باضابطہ طور پر ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
کابل میں پاکستانی سفارت خانے پر حملے میں ملوث داعش کے عسکریت پسندوں کے مارے جانے سے متعلق سوال پر رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اس حوالے سے معلومات مل گئی ہیں، لیکن جب تک وزارت داخلہ اس کی تصدیق نہیں کرتی اسے محض معلومات سمجھا جائے گا۔
'اور اگر ایسا ہے تو ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں اور افغانستان میں حکام کو تحفظ فراہم کرنا ان (افغان حکومت) کی ذمہ داری ہے۔'