پاکستان کے صحرائی علاقے تھر میں جیپ ریلی منعقد ہونے جا رہی ہے۔ پاکستان کے دیگر علاقوں میں بھی جیپ ریلیاں منعقد ہوتی ہیں اور ریگستان میں تیز رفتاری اور جیپ پر کنٹرول رکھنے کے عاشق ڈرائیورز ان جیپ ریلیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔
جیپ ریلی چاہے تھر میں ہو یا چولستان کے سحرا میں ہو یا پھر سرفرنگا کے سرد صحرا میں ہو، شوقین افراد سینکڑوں میل کا سفر طے کر کے ان جیپ ریلیوں میں حصے لینے کے لیے پہنچتے ہیں۔
لیکن شاید اسی جنون میں ہم اس بات کو بالکل نظر انداز کر دیتے ہیں کہ جس جیپ ریلی کے لیے بڑی تشہیر کی جاتی ہے، چرچے کیے جاتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ نہ صرف ڈرائیورز اس میں حصہ لیں بلکہ عوام بھی انہیں دیکھنے آئیں، اسی جیپ ریلی سے ان صحرائی علاقوں کو کتنا ماحولیاتی نقصان ہو رہا ہے۔
آئندہ چند ہفتوں میں تھر جیپ ریلی کا انقعاد ہونے جا رہا ہے۔ منتظمین کا کہنا ہے کہ اسی جیپ ریلی کے باعث تھر پارکر ضلع میں ہزاروں افراد کو روزگار ملتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ بھی اسی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ مقامی جنگلی حیات خاص طور پر ہرنوں کا کیسے خیال رکھا جانا ہے۔ لیکن سندھ کے محکمہ وائلڈ لائف نے اس جیپ ریلی کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
وائلڈ لائف کا موقف یہ ہے کہ جو ریسنگ ٹریک بنایا جا رہا وہ چنکارا ہرن کے تحفظ کے لیے محفوظ پناہ گاہ ’چنکارا وائلڈ لائف سینکچوری‘ کے درمیان سے گزر رہا ہے جو چنکارا ہرن کے لیے نقصان دہ ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ درختوں کے کاٹنے، جیپ یا کار دوڑانے سے ہونے والے شور کی صورت میں سندھ وائلڈ لائف پروٹیکشن، پریزرویشن، کنزرویشن اینڈ مینیجمنٹ ایکٹ 2020 کے تحت بھاری سزا دی جا سکتی ہے۔
قانون کے سیکشن نائن سی کے تحت جنگلی حیات کے لیے قانونی طور پر محفوظ قرار دی گئی پناہ گاہ میں درخت کاٹنا جرم ہے، جس کی سزا چھ ماہ قید اور 50 ہزار روپے کا جرمانہ ہو سکتا ہے۔
اسی طرح سیکشن نائن ڈی کے تحت محفوظ قرار دیے گئے علاقے کی حدود میں تبدیلی، یا مداخلت کو ناقابل ضمانت جرم قرار دیتا ہے، جس کی سزا پانچ سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ ہو سکتا ہے، لیکن جب حکومت ہی قانون کی پرواہ نہ کرے تو پھر کیا کیا جا سکتا ہے۔
The #Chinkara, like some of us, is a very shy animal. It is often found alone and rarely seen in groups, like in this picture.
— WWF-Pakistan (@WWFPak) June 20, 2020
Aren’t these beautiful animals worth saving?
1/2 pic.twitter.com/kS1wzwxJ71
تھر جیپ ریلی گذشتہ کئی سالوں سے منعقد کی جا رہی ہے اور ہر سال اسی طرح مخالفت کی جاتی ہے لیکن جیپ ریلی کو منعقد ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ریلی کے لیے بڑی تعداد میں درخت کاٹ کر لمبا ٹریک تیار کیا جاتا ہے۔
ریلی خاموشی میں نہیں ہوتی۔ جیپ ریلی میں حصہ لینے والے ڈرائیورز کے علاوہ سینکڑوں لوگ اپنی گاڑیوں میں آتے ہیں۔ ہارن کا بے دریغ استعمال ہوتا ہے۔ لاؤڈ سپیکرز پر اعلانات اور موسیقی بجائی جاتی ہے، رات کو صبح کا سماں بنانے کے لیے تیز روشنی کا انتظام کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ سیکشن نائن ایچ کے مطابق قابل سزا جرم ہے جس کی سزا تین ماہ ہے اور بیس ہزار روپے جرمانہ ہے۔
پچھلے برسوں کی بات اور تھی کیونکہ سندھ کے محکمہ جنگلی حیات کے پاس موثر قانون نہ ہونے کے باعث کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا تھا لیکن اب سندھ وائلڈ لائف پروٹیکشن، پریزرویشن، کنزرویشن اینڈ مینیجمنٹ ایکٹ 2020 کے رولز آف بزنس منظور ہونے کے بعد محکمے نے باضابطہ طور پر ایکشن لینا شروع کر دیا ہے۔
پاکستان کی وزارت موسمیاتی تبدیلی کی جانب سے کرائے گئے سروے کے مطابق خیبر پختونخوا کے علاقے منگلوٹ، کالاباغ، پنجاب کے صحرائے چولستان سے لے کر سندھ کی کھیرتھر کی پہاڑیوں کے علاقوں میں چنکارا ہرن ہیں۔ اس کے علاوہ سبی کے میدانی علاقوں مکران، تربت اور لسبیلہ میں بھی چنکارا ہرن موجود ہیں۔ لیکن ان کی تعداد محض 585 ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق چنکارا ہرن ریتیلے اور پہاڑی و میدانی علاقوں میں پائے جاتے ہیں اور ان کی تعداد میں واضح کمی ہو رہی ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق 1983 میں پسنی اور اوڑماڑہ کے درمیان 10 سے 12 چنکارا ہرن نظر آ جاتے تھے لیکن پانچ سال کے اندر ہی ان کا اتنا شکار کیا گیا کہ اسی علاقے میں مشکل ہی سے کوئی چنکارا ہرن دکھائی دیتا ہے۔ تاہم وائلڈ لائف ماہرین کا خیال ہےکہ چنکارا ہرن کی تعداد تقریباً 3000 تک ہے کیوں کہ چنکارا ہرن کی بڑی تعداد چڑیا گھروں، وائلڈ لائف پارکس میں ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دو دہائیوں سے بڑھتے ہوئے موسمی تبدیلی کے اثرات اور انسانی وجوہات کی وجہ سے صحرائے تھر کی جنگلی حیات اور ماحولیات خطرے میں ہیں۔
ایک طرف قحط کی وجہ سے بھوک اور پیاس ہے دوسری طرف غیر قانونی شکار کے باعث جنگلی جانور خاص طور پر چنکارا ہرن کی نسل خطرے میں ہے۔
موسمی تبدیلی کے باعث تھر میں کنڈی، کونبھٹ کے ساتھ پیلوں، تھوہر، باؤری، گگرال کے درخت تیزی سے ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ 2017 سے 940 کلومیٹر کے تھرپارکر میں ہرن اور پرندوں کے شکار پر پابندی عائد ہے اور اس علاقے کو چنکارا وائلڈ لائف سینکچوئری کا نام دیا گیا ہے۔ شکار پر پابندی شمال میں وجاٹو سے لے کر چاہلیار تک اور مشرق میں چاہلیار سے لے کر بھوریلو تک، جنوب میں بھوریلو سے لے کر مٹھی تک اور مغرب میں مٹھی سے لے کر وجاٹو تک عائد ہے۔
غیر قانونی شکار اور ماحولیاتی تبدیلی سے چنکارا ہرن سے جو خطرات تھے وہ تو اب بھی ہیں لیکن اب سرکاری سطح پر جیپ ریلی کا انعقاد سے ایک اور خطرہ لاحق ہو گیا ہے جس پر قابو کیا جا سکتا ہے اگر جنگلی حیات اور ماحولیات کے محکموں سے صلاح مشورہ کر کے اس قسم کی جیپ ریلیوں کا انعقاد کرایا جائے۔
سیاحت کو فروغ دینا ضروری ہے لیکن کسی بھی اور ملک کی طرح ماحولیات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسا کرنا ضروری ہے اور خاص طور پر اگر یہ سب حکومت کی جانب سے منعقد کیا جا رہا ہے۔ اگر ٹور ڈی حنجراب سائیکل ریس کو فروغ دیا جائے تو بہت ہی عمدہ بات ہے لیکن سیاحت کی فروغ کے لیے جذبات میں بہہ کر کے ٹو بیس کیمپ تک کی ماؤنٹین بائیک ریلی کا انعقاد کا اعلان کر دینا ماحولیات کے لیے شدید نقصان دہ ہے۔