پاکستان سمیت دنیا بھر کے 40 ممالک نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس ماہ کے شروع میں فلسطینی اتھارٹی پر لگائی گئی پابندیاں ختم کرے۔
فلسطینی اتھارٹی کی کوشش ہے کہ اقوام متحدہ کی عدالت عالیہ سے اسرائیلی قبضے کے بارے میں مشاورتی رائے حاصل کی جائے۔
30 دسمبر 2022 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے پر عالمی عدالت انصاف سے رائے طلب کی گئی تھی۔
اس کے جواب میں اسرائیل نے چھ جنوری کو فلسطینی اتھارٹی کے خلاف مالی اور متعدد دیگر پابندیوں کا اعلان کیا تھا تاکہ اسے قرارداد کی ’قیمت چکانی‘ پڑے۔
فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اقوام متحدہ کے تقریبا 40 رکن ممالک نے بین الاقوامی عدالت برائے انصاف اور بین الاقوامی قانون کے لیے اپنی ’غیر متزلزل حمایت‘ کا اعادہ کرتے ہوئے ’جنرل اسمبلی میں درخواست کے بعد اسرائیلی حکومت کی جانب سے فلسطینی عوام، قیادت اور سول سوسائٹی کے خلاف تعزیری اقدامات کرنے کے فیصلے پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔‘
پیر کو صحافیوں کو دیے گئے ایک بیان میں ارکان نے کہا کہ ’قرارداد پر ہر ملک کے موقف سے قطع نظر، ہم بین الاقوامی عدالت انصاف میں مشاورتی رائے کی درخواست اور جنرل اسمبلی کی قرارداد کے جواب میں تعزیزی اقدامات کو مسترد کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ انہیں واپس لیا جائے۔‘
بیان پر ان ممالک کے دستخط ہیں جنہوں نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا (پاکستان، الجیریا، ارجنٹینا، بیلجیئم، آئرلینڈ، جنوبی افریقہ اور دیگر) لیکن ان کے علاوہ جاپان، فرانس جنوبی کوریا، جرمنی اور ایسٹونیا جیسے دیگر ممالک نے بھی ووٹ دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اقوام متحدہ میں فلسطین کے سفیر ریاض منصور نے ایک بیان میں کہا کہ ’یہ اہم ہے کیونکہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ممالک نے کس طرح ووٹ دیا، وہ ان تعزیزی اقدامات کو مسترد کرنے میں متحد ہیں۔‘
ارکان کے بیان کے بارے میں پوچھے جانے پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ترجمان نے انتونیو گوتیریش کی جانب سے ’فلسطینی اتھارٹی کے خلاف حالیہ اسرائیلی اقدامات‘ پر ’گہری تشویش‘ کا اعادہ کرتے ہوئے زور دیا کہ آئی سی جے کے حوالے سے ’کوئی انتقامی کارروائی نہیں کی جانی چاہیے۔‘
مسئلہ فلسطین پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بدھ کو شیڈول ہے۔
اس سے قبل رواں ماہ ایک اسرائیلی وزیر کے مسجد اقصیٰ کے دورے کے بعد ہونے والے اجلاس میں اسرائیلی اور فلسطینی سفارت کاروں کے درمیان تلخ کلامی ہوئی تھی۔