پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت تحلیل ہونے کے بعد اب نگران حکومت بنانے کے لیے تگ و دو جاری ہے، اور سابق حکومت اور حزب اختلاف کی جماعتوں کی اس حوالے سے مشاورت بھی جاری ہے۔
خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی تقریباً 10 سالہ دور حکومت اختتام کو پہنچ گیا۔ بعض لوگ پی ٹی آئی کی طرز حکومت سے خوش تو بعض تنقید بھی کرتے ہیں۔
اسی تنقید میں ایک یہ بات بھی ہوتی رہی، کہ پی ٹی آئی نے صوبے کو ماضی کے مقابلے میں زیادہ مقروض کیا ہے، اور اس قرضے کو واپس کرنا صوبے میں آنے والی اگلی حکومت کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہو گا۔
پی ٹی آئی نے صوبے میں مختلف ترقیاتی منصوبوں کے لیے عالمی مالیاتی اداروں اور بینکوں سے مختلف مدوں میں قرضے لیے ہیں، جس کی تفصیل انڈپینڈنٹ اردو کے پاس دستاویزت میں موجود ہے۔
دستاویزات کے مطابق جون 2022 تک پی ٹی آئی کی حکومت نے 359 ارب سے زائد قرضہ لیا ہے، تاہم پی ٹی آئی کی جانب سے مجموعی طور تقریباً 900 ارب تک قرضوں کی معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اب تک صوبے کو 359 ارب روپے کا قرضہ ملا ہے، اور اسی کو واپس کرنا ہے جبکہ باقی 600 ارب روپے کا قرضہ، جن کے معاہدے تو ہو چکے ہیں، لیکن وہ پیسے ابھی آنا باقی ہیں۔
دستاویزات کے مطابق سب سے زیادہ ایشیائی ترقیاتی بینک سے تقریباً ڈیڑھ سو ارب کا قرضہ لیا گیا ہے، اور اسی قرضے میں پشاور بس ریپیڈ ٹرانزٹ کے لیے لیا گیا قرضہ بھی شامل ہے۔
دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ قرضہ انٹرنیشل ڈیویلیپمنٹ ایسوسی ایشن سے لیا گیا ہے، جس کا حجم تقریباً 112 ارب روپے ہیں جبکہ تیسرے نمبر پر زیادہ قرضہ جاپان انٹرنیشنل کواپریشن ایجنسی (جیکا) سے لیا گیا ہے جو تقریباً 21 ارب روپے بنتے ہیں۔
دستاویزات کے مطابق قرضوں کے معاملے پر اگر پی ٹی آئی حکومت کا سابقہ حکومت سے موازنہ کیا جائے تو بجٹ کی حجم کے مطابق پی ٹی آئی نے پچھلی حکومتوں کے مقابلے پر کم قرضہ لیا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق پی ٹی آئی نے مالی سال 2021 اور 2022 میں صوبے کی سالانہ بجٹ کا 26 فیصد حصہ قرض لیا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں 2011 اور مالی سال 2012 میں اس وقت صوبے میں برسر اقتدار جماعت عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت نے بجٹ کا 40 فیصد حصہ بیرونی قرضہ لیا تھا۔
تاہم حجم کی بات کی جائے، تو بظاہر دستاویزات کے مطابق قرضے کا حجم 2011 میں 123 ارب سے بڑھ کر اب 359 ارب تک پہنچ گیا ہے، لیکن یہ بات یاد رکھنی ضروری ہے کہ 2011 میں صوبے کا مجموعی بجٹ 304 ارب جبکہ رواں سال صوبے کا مالی بجٹ 1332 ارب تھا، جو چار گنا سے بھی زیادہ بنتا ہے۔
اسی حوالے سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے خیبر پختونخوا کے سابق وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا سے پوچھا، تو ان کا کہنا تھا کہ حزب اختلاف کی جماعتوں نے کوئی موقع جانے نہیں دیا، کہ وہ یہ ثابت کریں کہ پی ٹی آئی نے خیبر پختونخوا میں زیادہ قرضہ لیا ہے۔
تاہم جھگڑا کے مطابق اب سرکاری اعداد و شمار سب نے دیکھ لیے ہیں کہ صوبے نے خود ریوینیو کلیکشن پر کام کیا، اور پچھلے تین سال میں خیبر پختونخوا ریوینیو اتھارٹی کو بہتر ریوینیو ایجنسی بنایا۔
انہوں نے بتایا، ’ہم قوانین بھی لائے ہیں۔ ہم پہلی حکومت ہیں جو قرضوں کی مینیجمنٹ کے لیے قانون بنا چکے ہیں اور پچھلے چھ مہینوں میں کرائسس کے باوجود ہم نے صوبے کی معیشت کو خراب ہونے نہیں دیا۔‘
ماہرین کیا کہتے ہیں؟
ڈاکٹر ناصر اقبال پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس میں پروفیسر ہیں اور پاکستان کی معاشی صورت حال پر گہری نظر رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر ناصر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پی ٹی آئی کی حکومت سے پہلے خیبر پختونخوا کی معیشت زیادہ تر دہشت گردی اور اس کے قسم کے معاملات سے منسلک تھی، یعنی اس مد میں صوبے کو پیسے دیے جاتے تھے، تاہم پچھلے دس سالوں میں یہ انحصار کم ہوا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا، ’خیبر پختونخوا کی ایک اچھی روایت یہ ہے کہ پچھلے 10 سالوں میں یہ بھی ہوا ہے، کہ صوبے نے لوکل قرضہ نہیں لیا ہے اور لوکل قرضے پر سود بہت زیادہ ہوتا ہے لیکن لوکل قرضے خیبر پختونخوا کے نہ ہونے کے برابر ہیں جو قرضوں کی مینیجمنٹ کے لیے ایک اہم قدم ہے۔‘
ڈاکٹر ناصر نے مزید بتایا کہ اعداد و شمار سے بالکل واضح ہے، کہ خیبر پختونخوا نے پچھلے دس سالوں میں بجٹ کے مقابلے میں کم قرضہ لیا ہے، جبکہ دیگر صوبوں کے مقابلے میں خیبر پختونخوا نے کم قرضے لیے ہیں۔
انہوں نے بتایا، ’پنجاب کے بیرونی قرضے بجٹ کا 45 فیصد، سندھ کا 41 فیصد جبکہ خیبر پختونخوا کے قرضے بجٹ کا 32 فیصد ہیں۔ اس میں یہ بھی ہے کہ خیبر پختونخوا نے سارے قرضے عالمی اداروں سے لیے ہیں، جس کی واپسی کے لیے بہت عرصہ درکار ہوتا ہے اور یہ سافٹ قرضے ہوتے ہیں۔‘
تاہم ڈاکٹر ناصر کے مطابق اگر مجموعی طور پاکستان کی بات کی جائے، تو اگر 60 کھرب پاکستان کا بجٹ ہے، تو اس میں آدھے سے زیادہ قرضہ ہوتا ہے لیکن وہ ملک کی سطح پر ہے جبکہ خیبر پختونخوا صوبے نے قرضوں کی مینیجمنٹ بہت اچھے طریقے سے کی ہے۔
قرضے کس مد میں لیے گئے؟
سرکاری دستاویزات کے مطابق سب سے زیادہ قرضہ ٹرانسپورٹ سیکٹر میں لیا گیا ہے، جس کا حجم 135 ارب روپے سے زیادہ ہے اور اس میں سب سے زیادہ قرضہ بی آرٹی منصوبے کے لیے لیا گیا ہے جس کا حجم 61 ارب روپے ہے۔
اسی طرح دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ قرضہ علاقائی ترقی کے منصوبوں کے لیے لیا گیا ہے جس کا مجموعی حجم 20 ارب روپے سے زیادہ ہے، جبکہ تیسرے نمبر پر زیادہ قرضہ سیاحت کے شعبے کے لیے لیا گیا ہے، جو پانچ ارب روپے سے زیادہ ہے۔