بچپن میں ہی ایک ہندو دیوی کے لیے وقف کی جانے والی ہواکا بھیماپا کی جنسی غلامی کا آغاز اس وقت ہوا جب ان کے چچا نے ایک ساڑھی اور کچھ زیورات کے بدلے ان سے ’زیادتی‘ کی۔
بھیماپا بمشکل دس برس کی تھیں جب وہ ’دیوداسی‘ بن گئیں۔ دیوداسی وہ لڑکیاں ہوتی ہیں، جن کے والدین ایک مخصوص رسم کے تحت ان کی شادی کسی ہندو دیوی کے ساتھ کر دیتے ہیں اور جن میں سے اکثر کو پھر غیر قانونی جسم فروشی پر مجبور کیا جاتا ہے۔
دیوداسیوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ مذہبی عقیدت کے ساتھ زندگی بسر کریں، دیگر انسانوں سے شادی نہ کریں جبکہ بلوغت کی عمر کو پہنچنے پر انہیں مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ پیسے یا تحائف کے بدلے اپنا کنوار پن کسی بوڑھے شخص کے لیے قربان کردیں۔
بھیماپا، جو 40 کی دہائی کے آخر میں ہیں، نے اے ایف پی کو بتایا: ’میرے معاملے میں (وہ شخص) میری والدہ کے بھائی تھے۔‘
اور اس کے بعد کے سالوں میں وہ جنسی غلامی میں پھنسی رہیں، جس کا مقصد دیوی کی خدمت کے نام پر دوسرے مردوں کے ساتھ تعلقات قائم کرکے اپنے خاندان کے لیے پیسے کمانا تھا۔
بھیماپا آخرکار اس غلامی کے چنگل سے نکلنے میں کامیاب ہوگئیں لیکن تعلیم کے بغیر، وہ کھیتوں میں محنت کرکے روزانہ تقریباً ایک ڈالر ہی کما پاتی ہیں۔
ان کے اس عمل نے ہندو دیوی یلما کی عقیدت مند کے طور پر گزارے گئے ان کے کئی سالوں پر بھی پانی پھیر دیا اور انہیں برادری سے بے دخل کر دیا گیا۔
بھیماپا کو کسی شخص سے محبت بھی ہوئی تھی، لیکن ان کے لیے اس سے شادی کی بات کرنا ناقابل تصور تھا۔
انہوں نے بتایا: ’اگر میں دیوداسی نہ ہوتی تو میرا ایک خاندان اور بچے ہوتے اور کچھ پیسہ ہوتا۔ میں اچھی زندگی گزارتی۔‘
والدین ایسا کیوں کرتے ہیں؟
دیوداسیاں صدیوں سے جنوبی انڈیا کی ثقافت کا ایک اہم حصہ رہی ہیں اور ایک زمانے میں انہیں معاشرے میں باعزت مقام حاصل تھا۔
تاریخ دان گیاتری آئیر نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’مذہبی طور پر منظور شدہ جنسی غلامی کا یہ تصور اصل نظام کا حصہ نہیں تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ 19ویں صدی میں، برطانوی نوآبادیاتی دور میں، دیوداسی اور دیوی کے درمیان ہونے والا معاہدہ جنسی استحصال کی وجہ بنا۔
اب یہ نظام انڈیا کی نچلی ذات کے غربت زدہ خاندانوں کے لیے اپنی بیٹیوں کی ذمہ داری سے خود کو بری الذمہ کرنے کے لیے ایک ذریعے کے طور پر کام کرتا ہے۔
1982 میں بھیماپا کی آبائی ریاست کرناٹک میں اس عمل کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا اور انڈیا کی سپریم کورٹ نے مندروں میں نوجوان لڑکیوں کو عقیدت کے طور پر وقف کرنے کے عمل ’برائی‘ قرار دیا ہے۔
تاہم اس کے خلاف مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ نوجوان لڑکیوں کو اب بھی خفیہ طور پر دیوداسی بنایا جاتا ہے۔
انڈیا کے انسانی حقوق کمیشن نے گذشتہ سال لکھا تھا کہ ریاستی پابندی کے چار دہائیوں بعد بھی کرناٹک میں 70 ہزار سے زیادہ دیوداسیاں موجود ہیں۔
شادی کے موقع پر جہیز دینے کی روایت کی وجہ سے انڈیا میں لڑکیوں کو عام طور پر بوجھ سمجھا جاتا ہے۔
بیٹیوں کو دیوداسی بننے پر مجبور کرکے، غریب خاندان اپنی آمدنی کا ذریعہ بناتے ہیں اور ان کی شادی کے اخراجات سے بچ جاتے ہیں۔
انڈیا کے ایک چھوٹے سے جنوبی قصبے سوندتی کے آس پاس کے بہت سے گھرانے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ خاندان کے کسی فرد کا دیوداسی ہونا ان کی خوش قسمتی کو بڑھا سکتا ہے۔
اسی مندر میں سیتاوا ڈی جودتی کی آٹھ سال کی عمر میں دیوی سے شادی کروائی گئی تھی۔
ان کی تمام بہنوں کی دوسرے مردوں سے شادی ہوچکی تھی، لہذا ان کے والدین نے اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے انہیں یلما دیوی کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ کیا۔
49 سالہ سیتاوا ڈی جودتی نے اے ایف پی کو بتایا: ’جب دوسرے لوگ شادی کرتے ہیں تو اس میں ایک دلہن اور ایک دلہا ہوتا ہے۔ جب مجھے احساس ہوا کہ میں اکیلی ہوں تو میں رونے لگی۔‘
ان کے والد آخرکار بیمار ہو گئے، جس کے باعث انہیں سکول چھوڑنا پڑا اور ان کے علاج کے اخراجات پورے کرنے کے لیے جنسی غلامی کا راستہ اپنانا پڑا۔
انہوں نے بتایا: ’17 سال کی عمر میں، میرے دو بچے تھے۔‘
ایک سابق دیوداسی ریکھا بھنڈاری نے بتایا کہ انہیں ’اندھی روایت‘ کا نشانہ بنایا گیا، جس نے ان کی زندگیاں برباد کر دیں۔
انہیں اپنی ماں کی موت کے بعد اس کام کے لیے مجبور کیا گیا تھا۔ وہ 13 سال کی تھیں جب ایک 30 سالہ شخص نے ان کا کنوارہ پن ان سے چھینا اور جلد ہی وہ حاملہ ہوگئیں۔
45 سالہ ریکھا بھنڈاری نے اے ایف پی کو بتایا: ’نارمل ڈیلیوری مشکل تھی۔ ڈاکٹر نے میرے گھر والوں پر چلاتے ہوئے کہا کہ میں بچہ پیدا کرنے کے لیے بہت چھوٹی ہوں۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں تھی۔‘
بیماریاں اور انفیکشن
کئی سالوں تک غیر محفوظ جنسی تعلقات کے باعث بہت سی دیوداسیاں ایچ آئی وی سمیت جنسی طور پر منتقل ہونے والی بہت سی بیماریوں کا شکار ہوئیں۔
دیوداسیوں کے ساتھ کام کرنے والی ایک کارکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا: ’میں اُن خواتین کو جانتی ہوں جو انفکشن کا شکار ہیں اور اب یہ ان کے بچوں میں منتقل ہو چکا ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’وہ اسے چھپاتی ہیں اور اس کے ساتھ ہی رازداری سے رہتی ہیں۔ بہت سی خواتین مر چکی ہیں۔‘
کچھ ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں، جہاں والدین پر اپنی بیٹیوں کو دیوداسی بنانے کی اجازت دینے پر مقدمات چلائے گئے جبکہ جو خواتین اس نظام سے نکل جاتی ہیں، انہیں ماہانہ 15 سو روپے کی معمولی سرکاری پینشن دی جاتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سوندتی میں کام کرنے والے ایک سرکاری ملازم نتیش پاٹل نے اے ایف پی کو بتایا کہ خواتین کے مندروں کے لیے وقف کیے جانے کا کوئی ’حالیہ واقعہ‘ سامنے نہیں آیا۔
انڈیا کے انسانی حقوق کمیشن نے گذشتہ سال میڈیا کی تحقیقات کے نتیجے میں، جس میں پتہ چلا تھا کہ دیوداسی نظام ابھی جاری ہے،
کرناٹک اور کئی دیگر انڈین ریاستوں سے استفسار کیا تھا کہ وہ اس عمل کو روکنے کے لیے کیا کر رہے ہیں۔
جو خواتین دیوداسی نظام کو چھوڑ دیتی ہیں، وہ زندگی بھر برادری سے بے دخل رہتی ہیں، تضحیک کا نشانہ بنتی ہیں اور ان میں سے بہت کم ہی شادی کرتی ہیں۔
بہت سی خواتین کا کوئی سہارا نہیں ہوتا، وہ کم تنخواہ پر محنت مزدوری اور کھیتی باڑی کا کام کرکے زندگی کی گاڑی چلاتی ہیں۔
جودتی اب ایک سول سوسائٹی گروپ کی سربراہ ہیں، جس نے ان خواتین کو اس نظام سے نکالنے میں مدد فراہم کی۔
انہوں نے می ٹو مہم اور دنیا بھر کی مشہور خواتین کے جنسی تشدد سے متعلق انکشافات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا: ’ہم خبریں دیکھتے ہیں اور بعض اوقات جب ہم مشہور لوگوں کو دیکھتے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ ان کا حال بھی ہمارے جیسا ہے۔ انہوں نے بھی یہی سب کچھ سہا ہے، لیکن وہ آزادی سے زندگی گزار رہے ہیں۔‘
بقول جودتی: ’ہم اسی تجربے سے گزرے ہیں، لیکن ہمیں وہ عزت نہیں ملتی جو انہیں ملتی ہے۔ دیوداسی خواتین کو آج بھی حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔‘