صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع دیر اور ملاکنڈ کی بلدیاتی حکومت میں منتخب خواتین نمائندوں کا کہنا ہے کہ ان کو ’خانہ پُری‘ کے لیے سسٹم میں شامل تو کر لیا گیا ہے، تاہم منتخب ہونے کے بعد انہیں اجلاس کے لیے بلایا گیا نہ ہی ان سے کوئی مشاورت کی گئی ہے، اور نہ ہی اب تک انہیں کسی قسم کا فنڈ دے کر علاقے کے عوام کی خدمت کا کوئی موقع فراہم کیا گیا ہے۔
بلدیاتی نظام میں خواتین کی حوصلہ شکنی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ خیبر پختونخوا میں 2021 اور 2022 میں ہونے والے پہلے اور دوسرے مرحلے کے انتخابات میں جہاں ایک جانب سیاسی جماعتوں نے خواتین کو بڑے عہدوں پر نظرانداز کیا، وہیں لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں بھی تحریری طور پر خواتین کو کسی بڑے عہدے پر نامزدگی یا انتخاب لڑنے کا بظاہر کوئی ’حق نہیں‘ دیا گیا۔
جب کہ ایکٹ میں جتنے صیغے استعمال ہوئے ہیں وہ صرف مذکر یعنی مردوں سے متعلق ہیں۔
ضلع ملاکنڈ کے شہر بٹ خیلہ سے تعلق رکھنے والی ویلج کونسلر سلوی خان نے اس دعوے کی تائید کرتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دس ماہ گزرنے کے بعد انہیں کسی بھی قسم کے اجلاس کے لیے بلایا گیا ہے، نہ ہی انہیں ان کی کوئی ذمہ داری بتائی جا رہی ہے۔
’میرا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے۔ لیکن اختیارات اور فنڈز نہ دینے، میٹنگز کے لیے نہ بلانے کا مسئلہ دیر اور ملاکنڈ کی تمام خواتین کونسلروں کو ہے۔ نہ ہماری کوئی تنخواہ ہے اور نہ ہی کوئی ذمہ داری سونپی جا رہی۔ بتایا جائے یہ تگ ودو کس لیے تھی؟‘
دوسری جانب، ضلع دیر سے تعلق رکھنے والی عشرت بی بی نے بھی انڈپینڈنٹ اردو کو کچھ ایسے ہی حالات بتائے۔
ملاکنڈ سے تعلق رکھنے والی پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے ویلج کونسلر کی نشست جیتنے والی لبنیٰ بی بی نے بھی انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ بہت شرمندگی کی بات ہے کہ خواتین نے تمام مشکلات کو عبور کرتے ہوئے عوام کی رضامندگی تو حاصل کی، لیکن اب لوگ ان سے سوال کرتے ہیں، کہ وہ علاقے کے لیے کام کیوں نہیں کرتیں۔
’ہم بھی عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں، لیکن یہ موقع ہمیں فراہم نہیں کیا جا رہا۔ تحصیل چیئرمین سبحان گل نے ہمیں کہا کہ خود انہیں صوبائی سطح سے کوئی جواب نہیں مل رہا تو وہ خواتین کو کس بنیاد پر اور کیوں میٹنگ کے لیے بلائیں۔‘
خیبر پختونخوا کے سابق وزیر بلدیات فیصل امین نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر خواتین کو اجلاس میں مشاورت وغیرہ کے لیے نہیں بلایا جاتا تو یہ سراسر غلط ہے۔
فیصل امین نے کہا کہ ’منتخب خواتین کو اجلاس کے لیے نہ بلانا زیادتی ہے کیونکہ انہی خواتین کو ساتھ لے کر انتخابات میں مہم چلائی جائے گی اور اس میں ان کا اہم کرادار ہو سکتا ہے۔‘
فنڈز کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’دراصل یہ مسئلہ مالی معاملات سے جڑا ہے۔ صوبے کو این ایف سی ایوارڈ میں حصہ نہیں دیا گیا اور یہی وجہ ہے کہ صوبے کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ بلدیاتی نمائندوں کو فنڈز فراہم کرتے۔‘
ضلع دیر سے تعلق رکھنے والی سماجی کارکن جو خواتین کی معاشی اور سیاسی مسائل پر کام کرتی ہیں، نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کا لوکل گورنمنٹ نظام میں سرے سے لگاؤ ہی نہیں ہے، تاہم اگر کوئی دلچسپی ہے بھی تو وہ صرف میئر کے عہدے تک ہی محدود ہے۔
انہوں نے کہا کہ لوکل گورنمنٹ میں چیئرمین اور میئر بھی یہی رویہ منتخب خواتین کے ساتھ روا رکھتے ہیں، جو نہ تو انہیں اپنی میٹنگز میں بلاتے ہیں، اور نہ ہی ان کے ساتھ کوئی مشاورت کرتے ہیں۔ جب کہ فنڈز کی تقسیم نہ ملنے کا خود مرد اراکین کو شکوہ ہے۔
شاد بیگم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ لوکل گورنمنٹ سسٹم میں خواتین کی دلچسپی، حوصلہ افزائی اور انہیں کامیابی کے ساتھ مہم چلانے اور بعد از الیکشن طریقہ کار سمجھانے کے لیے انہوں نے خیبرپختونخوا میں دوسرے مرحلے کے انتخابات سے قبل مارچ 2022 میں دیر اور ملاکنڈ کی 40 خواتین کو تربیت دی۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ بلدیاتی حکومت میں سیاسی جماعتوں کی عدم دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ جب انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں سے خواتین کی فہرست مانگی تو نہ تو انہیں نام فراہم کیے گئے اور نہ ہی بعض کو یہ معلوم تھا کہ ان کی جماعت کے ساتھ دیہی سطح پر کون خواتین وابستہ ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سماجی کارکن کا مزید کہنا ہے کہ یہ بات سمجھنا بہت اہم ہے کہ صوبائی اور بلدیاتی سطح پر خواتین کی مخصوص نشستوں کے انتخاب کا طریقہ کار بالکل الگ ہے۔
’بلدیاتی سطح پر خواتین کو مرد امیدواروں کی طرح انتخابی مہم چلانی ہوتی ہے۔ ایک مخصوص نشست پر تمام سیاسی جماعتیں اپنی امیدواروں کے کاغذات جمع کرتی ہیں، اس لیے یہ ایک سخت مقابلہ ہوتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اکثر خواتین اور بعض علاقوں میں پردے کی پابندی کی وجہ سے ان کے بھائی، والد یا شوہر ان کے لیے مہم چلاتے ہیں۔ لہذا اس مرحلے کے بعد جو خاتون امیدوار زیادہ ووٹ لیتی ہے، وہ منتخب ہو جاتی ہے۔‘
شاد بیگم نے کہا کہ پاکستانی سیاست میں مخصوص نشستوں پر آنے والی خواتین کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا کیونکہ اسمبلیوں میں مرد اراکین سمجھتے ہیں کہ یہ خواتین بغیر کسی دقت اور محنت کے اس نشستوں پر آئی ہیں۔
’لیکن دیہی سطح پر منتخب ہونے والی خواتین کا طریقہ کار بالکل مختلف ہے۔ وہ مردوں کی طرح مہم چلا کر کامیاب ہوتی ہیں۔‘
واضح رہے کہ منتخب ارکان کے لیے ایک شرط سرکاری ملازمت نہ کرنے کی بھی ہے۔ جب کہ دوسری جانب منتخب اراکین کو فنڈز اور تنخواہیں نہ ملنے کا بھی شکوہ رہتا ہے۔ ایسے میں تعلیم یافتہ خواتین بلدیاتی حکومت میں حصہ لینے کی بجائے ملازمتوں کو ترجیح دیتی ہیں۔
دوسری جانب ایک نقطہ یہ بھی ہے کہ صوبہ خیبرپختونخوا میں لوکل گورنمنٹ سسٹم میں تین بار ترامیم ہوئی ہیں، جس کی وجہ سے یہ سسٹم کبھی عہدوں اور کبھی اختیارات کی کمی پر روشنی ڈال رہا ہوتا ہے۔
بلدیاتی نظام میں حصہ لینے والوں کا کہنا ہے کہ آئے دن کی ترامیم کی وجہ سے بھی دیہی سطح کے امیدواروں پر مختلف اثرات مرتب ہوتے ہیں۔