حریف کے سر سے پاؤں تک مکمل سٹریٹیجی سے کِک مارتی، تیزی سے گھومتی اور حریف کو خود پر حاوی ہونے کا موقع دیے بغیر کھیلنے والی یہ ہیں وانیا غسان۔
دس سالہ وانیا حال ہی میں تائیکوانڈو کے نیشنل چیمپیئن شپ مقابلوں کی ’پومزے‘ کیٹیگری میں گولڈ میڈل حاصل کر چکی ہیں۔
وانیا کی فطری صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے خیبر پختونخوا کی مارشل آرٹس کی فیلڈ میں چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں کہ اگر وہ اس رفتار سے کھیلتی رہیں تو مارسل آرٹس کی دنیا میں ان کے اوج کمال تک پہنچنے کے آثار کافی روشن ہو جائیں گے۔
وانیا غسان نے سات سال کی عمر میں تائیکوانڈو سیکھنا شروع کر دیا تھا کیونکہ سکول اور محلے میں اکثر بچے انہیں ڈرانے کی کوشش کرتے تھے۔
وہ بتاتی ہیں: ’میں بلیئنگ (bullying) کرنے والے لڑکے لڑکیوں سے کافی خائف رہتی تھی۔ جب مجھے مارشل آرٹس میں جانے کا خیال آیا تو نہ صرف میں اپنا بلکہ دوستوں کا بھی دفاع کرنے لگی۔ میں نے ان لڑکیوں کو سبق سکھایا جنہوں نے مجھے ڈرایا تھا اور ایک دن میرا پاؤں بھی زخمی کیا تھا۔‘
وانیا سمجھتی ہیں کہ دیگر بچوں کو بھی تائیکوانڈو سیکھنا چاہیے تاکہ وہ نہ صرف جسمانی طور پر صحت مند رہیں بلکہ وہ اپنا دفاع بھی کر سکیں۔
وانیا کی والدہ نے بتایا کہ ان کی بیٹی بچپن میں ڈرانے دھمکانے والے بچوں سے اتنی خوفزدہ رہتی تھیں کہ گھنٹوں کمرے میں روتی رہتیں اور باہر نہیں نکلتی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ مارشل آرٹس میں شمولیت اختیار کرنے سے نہ صرف ان کی بیٹی مظبوط ہوگئی ہیں بلکہ ان میں کافی خود اعتمادی بھی آگئی ہے۔
وانیا نے بتایا کہ انہیں بھی بچیوں کی طرح گڑیوں سے کھیلنا پسند ہے لیکن ان لڑکیوں کے برعکس وہ اپنی گڑیوں کو بھی مارشل آرٹس سکھاتی رہتی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وانیا نے کہا کہ بہت ساری لڑکیاں ایسے ہیں جن میں صلاحیت بھی ہے اور وہ مارشل آرٹس میں جانا چاہتی ہیں لیکن انہیں یہ سہولت دستیاب نہیں ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ وہ تائیکوانڈو میں خاتون کوچ بننا چاہتی ہیں، اپنی اکیڈمی بھی کھولنا چاہتی ہیں اور ساتھ ساتھ آرکیٹیکٹ بھی بننا چاہتی ہیں۔
وانیا غسان کے کوچ اور خیبر پختونخوا کے سیکرٹیری تائیکوانڈو ایسوسی ایشن وقار آفریدی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کرونا وبا کی صورت حال کی وجہ سے آج کل سپورٹس مقابلے آن لائن ہورہے ہیں، جس میں مختلف سطح کے سینیئرز جیت اور ہار کا فیصلہ کھلاڑیوں کی تکنیک اور فاؤلز پر کیا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا: ’وانیا کو آن لائن مقابلے میں گولڈ میڈل اس وجہ سے ملا کہ ان کی تکنیک بین الاقوامی سطح کی تھی، جس وجہ سے وہ زیادہ پوائنٹس حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں۔‘
وقار آفریدی نے کہا کہ خیبر پختونخوا سے اب تک تائیکوانڈو کی فیلڈ میں کم عمر ترین گولڈ میڈلسٹ کا اعزاز صرف وانیا کو ملا ہے۔
تاہم انہوں نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مارشل آرٹس کے حوالے سے شعور کم ہونے اور نوجوانوں کے ذاتی مسائل کی وجہ سے بہت کم لوگ اس طرف راغب ہوتے ہیں، لیکن جب اچھے کھلاڑی آجاتے ہیں اور سیکھنے والوں کی تعداد بڑھنے لگتی ہے تو ان کے لیے حکومت کی طرف سے کسی قسم کا تعاون یا وسائل دینے پر سنجیدگی نہیں دکھائی جاتی، جس کیی وجہ سے نوجوان حوصلہ ہار کر یہ گیم چھوڑ دیتے ہیں۔