گرم کھولتے ہوئے تیل کی کڑاہی میں سخت گوندھے گئے آٹے کے چوکور پیڑے ایسے اچھل اچھل کر پک رہے ہیں، جیسے مکئی کے دانے بھٹی میں ناچتے گاتے بھن کر پھول بن جاتے ہیں۔
جب یہ پیڑے پک کر سرخ ہو جاتے ہیں تو پھر انہیں چھانی سے نکال کر ایک بڑے سے طبق یعنی تھال میں اس طرح چن کر رکھ دیا جاتا ہے کہ گڑ کی ڈھیری کا گمان گزرتا ہے۔ اس دوران بینچوں پر بیٹھے گاہکوں کا ندیدہ پن بڑھ جاتا ہے، وہ بار بار پہلو بدلتے ہیں کہ کب گرما گرم میٹھے کلچے کڑاہی سے نکلیں اور وہ انہیں چائے کے پیالوں میں ڈبو ڈبو کر کھائیں۔
مگر حاجی علی نقی کو جلدی نہیں ہے۔ وہ کلچہ بنانے، پکانے اور چائے تیار کر کے پیش کرنے تک جلدی بازی کے قائل نہیں اور نہ ہی جلدی جلدی میں زیادہ کمانے کے چکر میں ہے، ان کے لیے یہ کام ذہنی سکون اور اپنی ذات کی شناخت کا ہے۔
حاجی علی نقی کی عمر اب 80 سال کے قریب ہے۔ بازوؤں میں پہلا جیسا دم خم تو نہیں رہا لیکن آنکھوں میں زندگی کی چمک پہلے سے زیادہ نمایاں ہے۔ سرخ سفید چہرے پر سفید گھنی داڑھی، میانہ قد، بڑی بڑی جھانکتی ہوئی آنکھیں اور سر پر صافہ باندھا ہوا، ہاں انہوں نے دانت نئے ضرور لگوانے ہیں۔ حاجی علی نقی کا ’نانگ ژھوق ہوٹل‘ سکردو کے مرکزی بازار کے عقب میں ایک تنگ سی گلی کے اندر آخری کونے میں واقع ہے۔
کہنے کو یہ ہوٹل ہے مگر اصل میں یہ چائے خانہ ہے اور بڑا قدیم۔ یہاں خالی چائے یا قہوہ نہیں بلکہ خاص قسم کا میٹھا کلچہ بھی لذت دہن کے لیے دستیاب ہے، جس کی ترکیب بھی خاص ہے اور ذائقہ بھی منفرد۔ اسے مقامی زبان میں ’زیر چونگ‘ کہتے ہیں۔ حاجی علی نقی کی مدد کے لیے ان کا جوان بیٹا اور بھانجا ہمہ وقت ان کے دائیں بائیں کھڑے رہتے ہیں اور سچ جانو تو اب سب کام ان دونوں نے سنبھال رکھا ہے مگر حاجی علی نقی نے ابھی ریٹائرمنٹ نہیں لی ہے۔
حاجی علی نقی کا تعلق نانگ ژھوق گاؤں سے ہے، جس کا احوال بھی کچھ کم اہم نہیں ہے۔ نانگ ژھوق کوئی بڑا گاؤں نہیں بس پندرہ بیس گھروں پر مشتمل ہے، لیکن اس کی تاریخی اور سیاحتی اہمیت بہت زیادہ ہے۔
سکردو شہر کے شمال کی اطراف میں ایک پہاڑی چوٹی کھری ڈونگ کے نام سے ہے، اسی چوٹی پر قلعہ کھرپوچو بنایا گیا تھا، جس کی اپنی الگ تاریخ ہے۔ اس قلعے اور پہاڑی کے قدموں کو چھوتا ہوا دریائے سندھ گزرتا ہے جس کا پانی گرمیوں میں خوب مٹیالا اور سردیوں کے مہینوں میں قرمزی رنگ کا بن جاتا ہے۔ کھرپوچو کی پہاڑی کے عقب میں دریائے سندھ کے کنارے کنارے چھوٹے سے ایک قطعہ زمین پر نانگ ژھوق گاؤں آباد ہے۔
گاؤں کے لوگوں کی بود باش نہایت سادہ اور روایتی انداز کی ہے۔ گھروں کی طرز تعمیر، راستے، پگڈنڈیاں اور کھیت کھلیان سب مقامی روایات لیے موجود ہیں۔ سکردو شہر سے اس گاؤں تک کوئی سڑک نہیں بلکہ کھرپوچو پہاڑی کی پتھریلی پگڈنڈی سے گزرنا پڑتا ہے اور اسی تنگ، اونچ نیچ والے راستے کے ساتھ ساتھ گہری کھائی ہے اور ساتھ بپھرتا دریائے سندھ، اگر کسی نے مستی میں قدم ادھر ادھر کرلیے تو یہ جا وہ جا دریائے سندھ کی لہروں سے ہم آغوش ہو جانے میں تھوڑا سا بھی وقت نہیں لگے گا۔
سال 2005 میں آغا خان رورل سپورٹ پروگرام نے اس گاؤں کو آرگینک ولیج کے طور پر بحال کیا تھا اور خاص بات یہ کہ اس گاؤں کو ہی دیکھنے کے لیے برطانیہ کے موجودہ بادشاہ چارلس سوم، ڈچز کمیلا پارکر اور ہزہانس پرنس کریم آغا خان 2006 میں نانگ ژھوق پہنچے۔ کمیونٹی نے بھرپور استقبال کیا، مہمان گاؤں دیکھ کر خوش ہوئے اور دیسی کھانوں سے بھی خوب لطف اٹھایا۔
اسی چھوٹے گاؤں سے حاجی علی نقی نے سکردو شہر کا رخ کیا۔ پہلے پہل والدہ سے سیکھا اور پھر کسی جانے والے کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا اور زیرچونگ بنانے کا ہنر ازبر کر لیا۔ ابتدا میں انہوں نے بٹھو بازار میں ایک دیسی سٹائل کی دکان میں چائے خانہ کھولا اور چکنی مٹی سے بنائے گئے آتش دان میں جسے مقامی زبان میں ’ڑگیاتھپ‘ کہتے ہیں، لکڑی کی آگ میں چائے اور زیرچونگ بنانے کا کام شروع کیا۔ گاہک آتے گئے اور کام چل پڑا۔
اٹلی کے سلوانا ٹیروم کا کھینچا گیا ایک فوٹو اور ان کی تحریر ابھی تک حاجی علی نقی کے پاس محفوظ ہے۔ فوٹو میں دکان کا اندرونی منظر اس وقت کی مصروفیت کی عکاسی کر رہا ہے۔ دکان کے ایک طرف تھپ بنی ہوئی ہے اور اس کے اوپر چائے کی کیتلی رکھی ہوئی اور پاس ہی بڑے سے طبق میں زیرچونگ پڑے ہوئے ہیں۔
اندر ملگجا اندھیرا چھایا ہوا ہے اور لکڑی کی ایک عام سی ٹیبل کے اردگرد گاہکوں کے سامنے چائے کے پیالے رکھے ہوئے ہیں اور وہ یقیناً زیر چونگ سے لطف اندوز ہو رہے ہوں گے۔ اسی تصویر کے کونے میں حاجی علی نقی اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ نظر آرہے ہیں لیکن اس وقت ان کی داڑھی کالی تھی، دانت پورے بتیس تھے اور وہ حاجی بھی نہیں بنے تھے، صرف علی نقی تھے۔
1992 کے بعد انہوں نے اپنی جگہ بدلی اور ایک نئے جذبے کے ساتھ وہ مرکزی بازار کے قریب آ گئے اور یوں ان کے گاہکوں کی تعداد بھی بڑھتی گئی اور اب یہ عام چائے خانہ نہیں بلکہ ایک چوپال کی حیثیت اختیار کر گیا ہے جہاں طرح طرح کے لوگ آتے ہیں اور ہر قسم کی گفتگو کرتے رہتے ہیں۔ ان میں شاعر و ادیب بھی ہیں جو سود و زیاں سے بے پروا مثالیت پسندی کے اسیر ہیں۔
دوسری طرف دکانداروں کا ٹولہ بھی بیٹھا ہے جو کساد بازاری پر نکتہ چیں نظر آتے ہیں۔ ٹیبل کے کسی ایک کونے پر عام دیہاتی سر نہوڑائے روز و شب کی تلخیوں کو برضا و رغبت تسلیم کیے زیر چونگ کھا رہے ہیں، تو ساتھ ہی اسی ٹیبل پر نوجوانوں کا جمگھٹا جو موبائل فونز کے نت نئے ڈیزائن اور خصوصیات پر گفتگو کر رہے ہیں، غرض نانگ ژھوق ہوٹل میں سب کی برابر نمائندگی ہے اور یہ پاک ٹی ہاؤس کی طرح سکردو کا ٹی ہاؤس ہے۔
سردیاں ہوں یا موسم گرما ہر ایک کی یہاں حاضری ضرور ہوتی ہے۔ ان کے ہوٹل کے دائیں بائیں دکانوں میں لنڈے کے سلیپنگ بیگ، جوتے اور ٹریکنگ کا سیکنڈ ہینڈ سامان ٹھسا ہوا ہے، جہاں پر گرمیوں کے موسم میں بھانت بھانت کے ٹورسٹ کا ہجوم رہتا ہے۔ یہیں پر ولایت سے آنے والی حسیناؤں کے ساتھ ساتھ گھٹیلے جسم کے کوہ نوردوں کے علاوہ ملکی سیاح بھی آئی سیک، کریمپون، ٹیوا چپلیاں، رسی اور نارتھ فیس، ایچ ایچ یعنی ہیلی ہینسن، ایڈیڈس، بلیک یاک، زارا مین، نیکسٹ اور ماؤنٹین ہارڈویئر کے سیکنڈ ہینڈ کوٹ اور پتلون سستے داموں خریدتے نظر آتے ہیں۔ ان میں سے کئی نانگ ژھوق ہوٹل میں بھی جھانکتے ہیں اور حاجی علی نقی کی چائے اور زیر چونگ سے خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حاجی علی نقی کے پرانے ساتھیوں اور گاہکوں میں سے ایک کا نام جی ایم جذبہ ہے، جو اب تک تواتر کے ساتھ زیر چونگ کھانے نانگ ژھوق ہوٹل ضرور آتے رہتے ہیں۔ گو کہ جذبہ کی عمر بھی اب 70 سال کے لگ بھگ ہے اور ڈگری کالج سکردو میں بطور چوکیدار 33 سال ملازمت مکمل کرنے کے بعد اب انہیں ریٹائرڈ ہوئے گیارہ بارہ سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے مگر حاجی علی نقی کی طرح ان میں بھی بڑا دم خم باقی ہے۔ اسداللہ خان غالب نے تو پیرانہ سالی پر کہا تھا:
گو ہاتھ میں جنبشِ نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے
مگر جی ایم جذبہ کا جذبہ بھی جوان ہے اور ہمت بھی جوان، لہٰذا وہ اپنی شوخی گفتار کے ساتھ نانگ ژھوق ہوٹل ضرور پہنچ جاتے ہیں۔
جی ایم جذبہ برمحل اور فی البدیہہ اشعار سنانے میں خاص شہرت رکھتے ہیں اور یہ عادت برسوں سے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نانگ ژھوق ہوٹل سے ان کا رشتہ بہت پرانا ہے۔ جب ایک زیرچونگ آٹھ آنے کا آتا تھا اب اس کی قیمت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھ کر 50 روپے ہو چکی ہے مگر معیار، ذائقہ اور عادت کی وجہ سے پرانے گاہک اب بھی اسی طرح جڑے ہوئے ہیں جیسے روز اول سے تھے۔
ہم خود گذشتہ بیس سال سے اس کیفے میں جا رہے ہیں اور یہاں محمد عباس کھرگرونگ، غلام حسین بلغاری، وزیر شریف، غلام محمد ظفر، غلام علی، ذوالفقار علی، عبدالمجید شاہین، ماسٹر عاشق، بشارت ساقی، ضامن علی اور دیگر دوستوں کے ساتھ بار بار جانے کا اتفاق رہا ہے۔
حاجی علی نقی ہمیں دیکھ کر بڑے خوش ہوتے ہیں، ان کے بیٹے امتیاز حسین اور بھانجے محمد رضا بھی حد درجہ خوش اخلاق اور گاہکوں کے قدردان ہیں اور ان کے چہروں پر ہر دم مسکراہٹ کھیلتی رہتی ہے۔