پورے افغانستان میں صرف ایک ہی چڑیا گھر ہے جو کابل میں واقع ہے لیکن یہ چڑیا گھر بھی افغانستان کی حالت کی طرح زیادہ مشکلات اور اتار چڑھاؤ کا شکار رہا ہے۔
1960 کی دہائی میں جرمن ماہرین کے سروے پر اس چڑیا گھر کی بنیاد رکھی گئی تھی اور اس کی تعمیر اور حیوانات مہیا کرنے پر چار سال لگے تھے۔
1967 میں دھوم دھام سے اس کا افتتاح ہوا۔ پہلے پانچ سال تک افغانستان کے بادشاہ محمد ظاہر شاہ کے بیٹے سردار محمد نادر اس چڑیا گھر کے ڈائریکٹر تھے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس دور میں تفریح اور ماحولیات کو کتنی اہمیت دی گئی تھی۔
چڑیا گھر کے موجودہ ڈائریکٹر عزیز گل ثاقب نے کہا کہ ’چڑیا گھر کا ابتدائی دور اس لیے بہتر تھا کہ یہ لوگوں کے لیے دلچسپ تھا کیونکہ اس وقت تک افغانستان کے شہری چڑیا گھر سے ناواقف تھے اس لیے انہوں نے چڑیا گھر میں خاصی دلچسپی لی اور یہ دور کابل چڑیا گھر کے لیے بہترین دور سمجھا جاتا ہے۔ چڑیا گھر انتظامیہ کے مطابق اس وقت چڑیا گھر میں سالانہ ڈیڑھ لاکھ لوگ گھومنے آتے تھے۔‘
1979 میں افغانستان میں شروع ہونے والی جنگ کے بعد جب روس افغانستان سے چلا گیا تو کچھ عرصے بعد افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہو گئی جس کے اثرات کابل کی گلیوں تک پہنچے۔ اسی جنگ کی تباہ کاریوں میں سے ایک کابل چڑیا گھر کا مکمل طور پر برباد ہونا بھی شامل ہے۔
اس چڑیا گھر میں سب کچھ برباد ہوگیا یا لوٹ لیا گیا تھا۔ حلال جانوروں کو ذبح کر لیا گیا اور حرام جانوروں کو یا تو بیچ دیا گیا یا گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ مرجان نام کا ایک اندھا شیر، چڑیا گھر کا زندہ رہ جانے والا واحد جانور تھا جو افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی کے چھ مہینوں کی ابتدائی حکومت کی عبوری انتظامیہ کے دور میں مر گیا۔
عزیز گل ثاقب جو چڑیا گھر کی تعمیر نو سے آج چڑیا گھر میں مسلسل کام کر رہے ہیں، کے مطابق جنگ کی تباہ کاریوں کے بعد لوگ ایک اچھی تفریح سے محروم ہو گئے۔
عزیز گل ثاقب کے مطابق، ’جنگ کے بعد چڑیا گھر میں کچھ نہیں بچا۔ یہاں میز اور کرسی تک نہیں بچی تھی۔ جب یہ چڑیا گھر بحال ہوا تو لوگ بہت خوش تھے۔ جنگ سے پہلے چڑیا گھرآنے والے ڈیڑھ لاکھ افراد کی نسب بحالی کے بعد 10 لاکھ لوگ سالانہ کابل چڑیا گھر آنے لگے۔‘
کابل چڑیا گھر میں اس وقت 100 اقسام کے 600 سے زائد جانور اور پرندے موجود ہیں۔ چڑیا گھر میں جانوروں کے علاج کے لیے کلینک بھی موجود ہے۔ چڑیا گھر میں گھومنے کے لیے آنے والے سالانہ 10 لاکھ افراد میں چھوٹے بچوں سمیت طلبہ اور زیر علاج منشیات کے عادی افراد شامل ہیں۔ اکیلے آنے والے بچوں کو مفت میں چڑیا گھر کی سیر کرائی جاتی ہے۔
عزیز گل ثاقب کے مطابق تحقیقی مرکز طلبہ کو تھیسس اور تحقیقی مقالوں میں مدد کرتا ہے۔ اس کے علاوہ چڑیا گھر کا تحقیقی شعبہ ان حیوانات اور پرندوں پر کام کر رہا ہے جن کی نسل معدومی کے خطرے سے دوچار ہے۔ تحقیقی
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مرکز کے حکام ان جانوروں اور پرندوں کو پکڑ کر افزائش نسل کے بعد ان کو ان کے فطری ماحول میں چھوڑ دیتے ہیں۔
عزیز گل ثاقب کے مطابق: ’کابل چڑیا گھر سرکار کی مدد کے بغیر مالی طور پر خودکفیل ہے۔ گذشتہ سال چڑیا گھر کی آمدنی تین کروڑ افغانی تھی، چڑیا گھر کا بجٹ دو کروڑ افغانی ہے، باقی رقم کو چڑیا گھر کے ترقیاتی کاموں کے لیے خرچ کیا جاتا ہے۔
’سردیوں اور محکمہ امر بالمعروف کی جانب سے چڑیا گھر میں عورتوں کی آمد پر پابندی کے باعث چڑیا گھر میں آنے والوں کی تعداد میں کمی ہوئی ہے مگر اس کے باوجود دیگر تفریحی مقامات کی نسبت چڑیا گھر آنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔‘
عزیز گل ثاقب کے مطابق، گذشتہ چار دہائیوں تک چلنے والی مسلسل جنگوں کے دوران استعمال ہونے والے بھاری اسلحے اور جنگلات کی کٹائی کے باعث جنگلی حیات افغانستان سے چلی گئی ہے۔ مگر اب جانور اور پرندے واپس آنا شروع ہو گئے ہیں جن کی ویڈیوز آج کل سوشل میڈیا پر وائرل ہیں۔ افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے ماحولیاتی اداروں نے جنگلی حیات کی حفاظت کے لیے آپس میں معاہدہ کیا ہے کہ ایک ملک سے دوسرے ملک ٓنے والے چرند و پرند کو مارا نہیں جائے گا۔
عزیز گل ثاقب کے مطابق: ’اس خطے میں تقریباً 149 اقسام کے جانور اور 60 سے 70 اقسام کے ایسے پرندے ہیں جن کی نسل کو مختلف خطرات لاحق ہیں۔ اس لیے یہ کہا جاتا ہے کہ ملکوں کی سرحدوں پر لوہے کی تاریں لگانے سے جانور نقل و حرکت نہیں کر سکتے۔‘
کابل چڑیا گھر میں جانوروں کو دیکھنے کے لیے آنے والے سیاح ہلال خوست صوبے کے رہائشی ہیں۔ ہلال کو زرافہ پسند ہے مگر کابل چڑیا گھر میں زرافہ نہیں۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ کابل چڑیا گھر میں زرافہ لایا جائے۔