پاکستان اور عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے مابین نویں جائزہ مذاکرات اسلام آباد میں مکمل ہوچکے ہیں۔ آئی ایم ایف مشن نے پاکستان کو قرض پروگرام کی بحالی کے لیے چند پیشگی اقدامات کرنے کی شرائط رکھی ہیں۔
ان میں ایک مرتبہ پھر پاکستان کو بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھانے، ڈالر کا مارکیٹ ریٹ طے کرنے اور مستقل بنیادوں پر آمدن بڑھانے جیسی شرط رکھی ہیں۔
پاکستان کو 30 جون تک اپنی مالی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے دوست ممالک سے فنڈنگ کی یقین دہانی کرانے کی شرط بھی رکھی ہے۔
پاکستان نے آئی ایم ایف کو بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مرحلہ وار اضافے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
تاہم آئی ایم ایف نے فی الحال اس پر اعتماد نہیں کیا اور سٹاف لیول معاہدے کو واشنگٹن کی منظوری سے مشروط کر دیا ہے۔
مذاکرات کے بعد وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ دوست ممالک سے فنڈز لینے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔
انہوں نے اعتراف کیا کہ آئی ایم ایف کو اعتماد کا فقدان ہے جس کا الزام انہوں نے تحریک انصاف کی گذشتہ حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف شرائط پر عمل درآمد نہ کرنا بتائی۔
مذاکرات کے بعد عموما سٹاف لیول معاہدے کے لیے تین چار روز لگتے ہیں۔
پاکستان نے کچھ بیرونی ادائیگیاں کی ہیں جو واپس مل جائیں گی، پٹرول پر سیلز ٹیکس نہ لگانے پر آئی ایم ایف کے ساتھ اتفاق رائے ہوا ہے، تاہم آئی ایم ایف کی شرط کے مطابق پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں لیوی کو پانچ پانچ روپے مزید بڑھایا جائے گا۔
لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان کے لیے آئی ایم ایف سے قرض لینا کیوں ضروری ہے؟ اس قرض پروگرام کی بحالی سے کیا پاکستان کی مالی مشکلات کم ہوجائیں گی اور عوام کو اس کا کیا فائدہ ہوگا؟
قرض پروگرام کی بحالی سے مہنگائی بڑھے گی
معروف صنعت کار محمد علی ٹبہ کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ قرض پروگرام کی بحالی سے عام آدمی کی مشکلات میں اضافہ ہوگا اور اس کے لیے اگلے 12 سے 18 ماہ مشکل ہوں گے۔
قرض پروگرام کے تحت بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا جس سے مہنگائی بڑھے گی خاص طور پر درآمدی اشیا مزید مہنگی ہوں گی۔ البتہ انہیں امید ہے کہ سال ڈیڑھ بعد مہنگائی کم ہونا شروع ہو جائے گی۔
ماہر معاشیات علی سلمان نے کہا کہ آئی ایم ایف قرض پروگرام کی بحالی سے اگر پیٹرولیم مصنوعات پر 17 فیصد سیلز ٹیکس عائد کیا گیا تو اس سے مہنگائی بڑھے گی۔
جنوری میں مہنگائی کی شرح 28 فیصد کے لگ بھگ رہی ہے جو کہ 75 سالہ تاریخ میں بلند ترین ہے۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی قیصر احمد شیخ کا کہنا ہے کہ اس معاہدے سے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا، مہنگائی پہلے ہی بہت زیادہ ہے اس کے بعد مزید بڑھے گی۔
قرض پروگرام کی بحالی کیوں ضروری ہے؟
پاکستان کے تیزی سے گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے قرض معاہدے پر عمل درآمد ضروری ہے۔
پاکستان کے لیے قرض کی رقم سے زیادہ قرض پروگرام کی بحالی اہم تھی۔ اس پروگرام کی بحالی سے پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے درمیان اعتماد بحال ہوگا جب کہ پاکستان اور اس کے دوست ممالک کے درمیان مالیاتی تعلقات بھی بحال ہوجائیں گے۔
سعودی عرب، یو اے ای اور چین پاکستان کو آئندہ مہینوں کے دوران پانچ سے سات ارب ڈالرز کی امداد دے سکیں گے ۔ جس سے سٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر بہتر سطح پر آجائیں گے۔
ماہر معاشیات علی سلمان کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف معاہدہ پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کی طرف پہلا قدم ہے تاہم صرف یہ قرض پروگرام کافی نہیں ہے۔
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان قرض پروگرام کی بحالی سے توقع ہے کہ دوست ممالک پاکستان کی امداد کے وعدے پورے کریں گے خاص طور پر چین پاکستان کے قرضوں کو موخر کرے گا اور مشکل کی اس گھڑی میں پاکستان کی پھر مدد کرے گا۔
وزیر اعظم کے معاون خصوصی اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین قیصر احمد شیخ کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف معاہدہ پاکستان کو ڈیفالٹ سے نکال سکتا ہے مگر مالی مشکلات سے نہیں بچا سکتا۔
’اس معاہدے سے پاکستان کو قرضہ مل جائے گا مگر ہمارے حالات ایک مقروض ملک کی طرح ہی رہیں گے جو ایک جگہ سے قرضہ لے کر دوسری جگہ واپس کر رہا ہے۔ مالی مشکلات کو حل کرنے کے لیے پاکستان کو کافی وقت اور محنت لگے گی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈالر مزید مہنگا نہیں ہوگا؟
قرض پروگرام کی بحالی کا دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ ملکی معیشت میں استحکام آئے گا اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر بہتر ہوگی، صنعت کار محمد علی ٹبہ کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ قرض پروگرام کی بحالی سے مارکیٹ میں موجود سٹے باز محتاط ہوجائیں گے اور ڈالر کا مصنوعی ریٹ ختم ہوجائے گا۔
انہیں امید ہے کہ ڈالر کی قیمت اپنی اصل قیمت پر آجائے گی اور جن لوگوں نے ڈالرز ذخیرہ کیے ہوئے ہیں وہ بھی مارکیٹ میں ڈالر لے آئیں گے جس سے مارکیٹ میں پیدا کردہ ڈالرز کی مصنوعی قلت ختم ہوجائے گی۔
علی سلمان کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف معاہدہ طے پانے سے ڈالر کا مصنوعی ریٹ ختم ہوگا اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے ترسیلات زر میں اضافہ ہوگا۔ ’ڈالر کا مارکیٹ ریٹ مقرر ہونے سے پاکستان کی بیرونی انفلوز بڑھیں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ درآمدات پر پابندیاں ختم ہونے سے ملکی معیشت کو چلایا جاسکے گا۔
قیصر احمد شیخ نے بھی اس بات کو تسلیم کیا تاہم انہوں نے کہا کہ ڈالر کے ریٹ میں مزید اضافے کی توقع نہیں ہے اور درآمدی سامان کی ایل سیز کھلنا شروع ہوجائیں گی۔
بجلی اور گیس کتنی مہنگی ہوگی؟
وزارت پاور ڈویژن نے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی کچھ تجاویز آئی ایم ایف کو دی ہیں جن کے مطابق بجلی تقریبا آٹھ روپے فی یونٹ مزید مہنگی کی جائے گی، سہہ ماہی ایڈجسٹمنٹ میں بجلی کی قیمت میں اضافہ الگ سے ہوگا، گردشی قرضے یا سرکلر ڈیٹ میں کمی کے لیے بجلی کے بنیادی ٹیرف میں اضافہ کرنا ہوگا۔
سہہ ماہی ایڈجسٹمنٹ میں بجلی چھ روپے 79 پیسےتک مہنگی کرنے کی تجویز الگ ہے۔
آئندہ پانچ ماہ کے دوران بجلی کی قیمتوں میں مرحلہ وار اضافے کی تجویز ہے۔ سہہ ماہی ایڈجسٹمنٹ میں رواں ماہ بجلی چار روپے46 پیسے تک مہنگی کی جائے گی۔
فروری میں ٹیرف میں اوسط اضافہ تین روپے 21 پیسے فی یونٹ بنے گا۔ مارچ میں سہہ ماہی ایڈجسٹمنٹ میں بجلی 69 پیسے مہنگی کرنے کی تجویز ہے جبکہ جون میں سہہ ماہی ایڈجسٹمنٹ میں بجلی ایک روپے 64 پیسے مہنگی کرنے کی تجویز ہے۔
ملک میں توانائی کے شعبے کا گردشی قرضہ 2700 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔
آئی ایم ایف شرائط کو پورا کرنے کے لیے گیس کی قیمتوں میں بھی اضافہ کیا جائے گا۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ گیس کے شعبے کا خسارہ صفر کرنے پر اتفاق ہوا ہے۔
محمد علی ٹبہ کا کہنا ہے کہ بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھنے سے برآمدی صنعتیں سب سے زیادہ متاثر ہوں گی اور ان کے لیے بین الاقوامی منڈیوں میں مقابلہ کرنا مشکل ہوجائے گا۔
پاکستان میں گیس کے شعبے کا خسارہ 1600 ارب روپے سے زائد بتایا جاتا ہے۔
برآمدات میں اضافہ کیسے ہوگا؟
ماہر معاشیات علی سلمان کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اپنی معیشت کو چلانے کے لیے خود ڈالر کمانے پر توجہ دینا ہوگی۔ پاکستان کو مقامی معاشی پیداوار کو بڑھانا ہوگا۔
محمد علی ٹبہ کا کہنا ہے کہ ملکی برآمدات کو بڑھانے کی کوئی پالیسی نہیں ہے، ملکی برآمدات کو بڑھانے کے لیے حکومت کو تمام سٹیک ہولڈرز کو ساتھ بٹھانا ہوگا اور ایک واضح پالیسی دینا ہوگی تاکہ برآمدات کو 30 سے 40 ارب ڈالرز سے اوپر بڑھایا جاسکے۔
قیصر احمد شیخ کہتے ہیں کہ ایکسپورٹس اور ترسیلات زر بھی بڑھیں گی اور غیر ملکی سرمایہ کار بھی پاکستان میں دلچسپی لینا شروع کر دیں گے۔
وزارت خزانہ کے حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کی شرائط پر مکمل عمل درآمد کرنے کے لیے آئندہ دنوں میں مشکل فیصلے کرنا ہوں گے۔
حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ سٹاف لیول معاہدے کے لیے منی بجٹ کے ذریعے اضافی ٹیکسز لگانے سمیت بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کی تیاری کر رہی ہے۔