بین الااقوامی مالیاتی فنڈ کا وفد پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کا پروگرام جاری رکھنے کے لیے ہنگامی مشن پر پاکستان پہنچ چکا ہے تاہم ملک میں جاری معاشی بحران اور ہنگامی اخراجات میں کٹوتیاں پاکستان کو لاحق ڈیفالٹ کے خطرے کی نشاندہی کر رہی ہے۔
پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف ملک کے ان معاشی مشکلات کا ذمہ دار سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت کو قرار دیتے ہیں جب کہ عمران خان اس معاشی صورت حال کا ذمہ دار موجودہ حکومت کو ٹھہراتے ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق گذشتہ سال کے تباہ کن سیلاب کا سامنا کرنے والے پاکستان کے پاس صرف 3.7 ارب ڈالر کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر باقی ہیں جو ملک کی تین ہفتوں کی ضروری درآمدات کے لیے بمشکل کافی ہیں۔
پاکستان کو اس صورت حال میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے سہارے کی اشد ضرورت جس نے جون میں ختم ہونے والے بیل آؤٹ پروگرام کے تحت 1.1 ارب ڈالر کی واجب الادا قسط جاری کرنی ہے۔
تاہم معاشی مشکلات کو دیکھتے ہوئے ماہرین کی جانب سے یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا آئی ایم ایف کا پروگرام پاکستانی معشیت کو لاحق ڈیفالٹ کے خدشے کو ٹال سکتا ہے؟
پاکستان کے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل بھی سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے پاس آئی ایم ایف ہی واحد منطقی انتخاب ہے۔
مفتاح اسماعیل کہہ چکے ہیں کہ: ’اگر آئی ایم ایف (پاکستان کی مدد کو) نہیں آتا ہے تو ہم دیوالیہ دیکھ رہے ہوں گے۔ ملک کو 24 واں سپورٹ پیکج پھر درکار ہوگا۔‘
ان کے مطابق ’میں تصور بھی نہیں کر سکتا کہ پاکستان آئی ایم ایف کے مسلسل پروگرام نہیں لے گا۔‘
پاکستانی روپے کی قدر میں 15 فیصد کمی اور ایندھن کی قیمتوں میں گذشتہ ہفتے کیا گیا اضافہ عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ اہم رکاوٹوں کو ختم کرنے میں مدد کر سکتا ہے خاص طور پر جب ٹیکس اہداف بظاہر قریب ہیں تاہم اس کے باوجود معیشت پر دباؤ بڑھ رہا ہے، کیوں کہ بیل آؤٹ پروگرام کو جون سے آگے بڑھایا نہیں جا سکتا اور ملک میں عام انتخابات قریب آ رہے ہیں۔
قرضہ جات کے ماہر فنڈ گرامسی کی اقتصادی ماہر کیتھرین ایگزم کا کہنا ہے ’اگر پاکستان کو (آئی ایم ایف) فنڈز نہیں ملتے ہیں تو ڈیفالٹ کا خطرہ عملی طور پر بڑھ جاتا ہے۔‘
وزیر اعظم شہباز شریف کے اصل حریف سابق کرکٹ سٹار عمران خان ہیں، جنہیں گذشتہ اپریل میں عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔
دونوں ہی ایک دوسرے کو اس بحران کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں حالانکہ ملک کے مالی حالات طویل عرصے سے تناؤ کا شکار ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان کا قرض اس کے جی ڈی پی کے 70 فیصد تناسب کے خطرے کے زون میں ہے اور اس سال سرکاری محصولات کا 40 سے 50 فیصد حصہ صرف سود کی ادائیگی کے لیے مختص ہے اور یہ صورت حال سری لنکا، گھانا اور نائیجیریا کی حالت سے بھی بدتر ہے۔
ایک اور معاشی ماہر جیف گریلز نے کہا: ’ملک کو بانڈز کے حوالے سے ایک اور طویل المدتی مسئلے کا سامنا ہے۔ یہ سوال زیادہ اہم ہے کہ انہیں کب تنظیم نو کی ضرورت ہے۔‘
پاکستان کے زیادہ تر بانڈز اب بھی اپنی قیمت کے نصف سے بھی کم پر ٹریڈ کر رہے ہیں۔
بینک آف کینیڈا اور بینک آف انگلینڈ کے ساورین (خود مختار) ڈیفالٹ ڈیٹا بیس کے مطابق پاکستان کے بانڈز 1999 کے بعد پہلی بار بین الاقوامی ڈیفالٹ کا سامنا کر سکتے ہیں۔
اس طرح کے بانڈز کی مالیت صرف 8.6 ارب ڈالر ہے جب کہ اس کے مقابلے میں پاکستان کو 30 ارب ڈالر صرف چین کو قرضوں کی مد میں لوٹانے ہیں۔
مفتاح اسماعیل کے مطابق ’بہتر ہوگا کہ پاکستان صرف ان ممالک یا ان اداروں کے پاس جائے جن کے ہم پہلے ہی بڑے مقروض ہیں اور کوشش کریں کہ ان سے کچھ اور طویل مدتی قرضے حاصل کریں۔‘
تاہم وزیراعظم شہباز شریف پر امید ہیں کہ آئی ایم ایف پاکستان کو قرضوں کی فراہمی دوبارہ شروع کر دے گا۔
انہوں نے گذشتہ ہفتے دارالحکومت اسلام آباد میں ایک تقریب میں کہا تھا کہ ’آئی ایم ایف کے ساتھ ایک معاہدہ ہو جائے گا اور ہم جلد ہی مشکل وقت سے نکل جائیں گے۔‘
گذشتہ سال کے سیلاب کے بعد پاکستان کی تعمیر نو کی کوششوں کے لیے کثیر جہتی اور دو طرفہ مالیاتی وعدے بھی آئی ایم ایف کی منظوری پر منحصر ہیں۔
لیکن مقامی تجزیہ کاروں کا بھی خیال ہے کہ حکومت کو سخت اقدام کرنا ہوں گے کیونکہ ممکنہ طور پر آئی ایم ایف کی جانب سے ایندھن اور توانائی کی قیمتوں میں مزید اضافے کا مطالبے سے مہنگائی کی چکی میں پسنے والے عوام پر بجلی بن کر گرے گا اور یہ حکومت کے لیے بھی غیر مقبول فیصلہ ثابت ہو گا۔
اگر آئی ایم ایف سے رقم جون تک نہ پہنچی تو نئی حکومت کے اقتدار سنبھالنے سے چھ ماہ پہلے ہی پاکستان فنڈز کی کمی کا شکار ہو جائے گا جس سے اس کی 22 کروڑ کی آبادی کو مزید معاشی مشکلات کا سامنا ہو گا۔
تاہم نگراں حکومت کو آئی ایم ایف معاہدے پر دستخط کرنے کا اختیار نہیں ہے جس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت اور اپوزیشن دیوالیہ ہونے سے بچنے کے مشترکہ مقصد کے لیے آپس میں تعاون کر سکتی ہیں؟