ترکی میں تین جنوری کو دو شدید زلزلوں نے ہزاروں عمارتوں کو نقصان پہنچایا ہے جس کے نیتجے میں اب تک ترکی کی ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی کے اعدادوشمار کے مطابق 25 ہزار سے زائد اموات واقع ہوئی ہیں جبکہ 80 ہزار سے زائد لوگ زخمی ہیں۔
اس زلزلے کے بعد بے شمار عمارتیں بھی ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکی ہیں جنہیں ہٹانے کے لیے امدادی ٹیموں سمیت ڈیزاسٹر مینیجمنٹ کا عملہ متحرک ہے۔
زلزلے کے بعد عمارتی ملبہ ہٹانے کا بین الاقوامی طریقہ کار کیا ہے، یہ جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے ڈاکٹر احمد علی گل سے بات کی جو یونیورسٹی آف مینیجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور میں سنٹر فار ڈیزاسٹر مینیجمنٹ کے ڈائریکٹر ہیں۔
ڈاکٹر احمد علی گل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بین الاقوامی طریقہ کار کے مطابق ملبے کو ہٹانے سے پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ کس قسم کا ہے۔ یعنی اگر ملبہ زہریلا ہے جس سے انسانوں، جانوروں یا ماحول کو نقصان پہنچ سکتا ہے تو اسے کہیں زیر زمین دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
انہوں نے مثال دیتے ہوئے بتایا کہ ’جاپان میں جو سونامی آیا اس سے نیوکلیئر پلانٹ کو نقصان پہنچا، وہاں تابکاری خارج ہوئی تو اس ملبے کو ایک محفوظ جگہ پر زمین کے اندر ڈمپ کرنے کا بندوبست کیا گیا تاکہ انسانوں اور جانوروں سمیت ماحول کو نقصان نہ پہنچ سکے۔‘
’دوسری جانب سیلاب کے بعد جو ملبہ ہوتا ہے، اس میں زیادہ تر لکڑی وغیرہ شامل ہوتی ہے جو بہہ کر آتی ہے، تو اسے دوبارہ استعمال کیا جاتا ہے۔‘
ڈاکٹر احمد علی گل کا کہنا تھا کہ ’اس کے برعکس زلزلے کی صورت میں دیگر آفات کے مقابلے میں ملبہ قدرے زیادہ ہوتا ہے، عمارتیں تباہ ہو چکی ہوتی ہیں اور لاکھوں، کروڑوں مکعب فٹ ملبہ ہوتا ہے۔ زلزلے کے ملبے میں کچھ فیصد تک ملبے کو دوبارہ کارآمد بنایا جا سکتا ہے جس میں غالب تعداد سریے جیسے عمارتی سامان کی ہوتی ہے۔ بین الاقوامی پریکٹس یہ ہے کہ سٹیل کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کی کوشش کی جائے۔‘
ڈاکٹر احمد کے مطابق ’پاکستان میں مقامی سطح پر ایک پریکٹس یہ ہے کہ پرانی عمارت سے اینٹوں کو سیمنٹ سے الگ کر کے دوبارہ قابل استعمال بنایا جاتا ہے۔،
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’امریکہ میں کسی بھی آفت کے دوران ملبہ ہٹانے میں امریکی فوج کا انجینیئر ڈویژن مدد کرتا ہے اور اس مقصد کے لیے باقاعدہ ایک گائیڈ لائن جاری کی گئی ہے، جس میں تباہ شدہ عمارتوں کا ملبہ ہٹانے کی منصوبہ بندی شامل ہے۔‘
امریکی فوج کی انجینیئرز کورپس ویب سائٹ پر موجود مذکورہ گائیڈ لائن میں لکھا گیا ہے کہ ’ملبے کو ہٹانے میں اس بات کا خاص خیال رکھنا ضروری ہے کہ اس سے انسانی صحت یا ماحول کو نقصان نہ پہنچے۔‘
پاکستان میں حالات کیا ہیں؟
اس بارے میں بات کرتے ہوئے ڈاکٹر احمد کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں ملبہ ہٹانے کی پالیسی تو دور کی بات، پہلے یہ پالیسی ہونی چاہیے کہ کیسے ایک قدرتی آفت کو ڈیزاسٹر بننے سے بچایا جائے۔ پاکستان میں ہر ایک آفت کے بعد دوسری آفت کا انتظار کیا جاتا ہے۔ آفت آنے کے بعد وہ منصوبہ بندی نہیں کی جاتی کہ کس طرح انسانی جانوں کا زیاں اور دیگر انفراسٹرکچرل نقصان کم سے کم ہو۔‘
پاکستان میں 2005 زلزلے کے بعد ملبے کو کیسے ٹھکانے لگایا گیا؟
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر، خیبر پختونخوا کے ضلع بٹگرام اور قریبی علاقوں میں 2005 کے زلزلے کے بعد جب سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن مکمل کرلیا گیا تو اس کے بعد سب سے بڑا مسئلہ وہاں سے ملبہ نکالنا تھا۔
زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں ملبہ کئی ماہ تک پڑا رہا لیکن متعلقہ حکومتی اداروں میں اتفاق نہیں ہو رہا تھا کہ اسے ہٹانا کس کی ذمہ داری ہے۔
متعلقہ اداروں نے مرکزی شاہراہوں سے ممکنہ حد تک ملبہ ہٹا دیا تھا تاکہ متاثرہ علاقوں تک امدادی کارروائیاں بحال رکھی جا سکیں۔
متعلقہ حکومتی اداروں کے اتفاق رائے کے بعد نیٹو اور امریکی فوج کے انجینیئرز کی ٹیم نے ملبہ ہٹانے کی ذمہ داری لی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کام میں جاپان انٹرنیشنل کوآپریشن، مرسی کورپس، آکسفام، اور انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائگریشن نے بھی مدد کی پیشکش کی۔
پاکستان میں 2005 کے زلزلے کا ملبہ ہٹانے کے حوالے سے سرکاری ادارہ برائے زلزلہ بحالی و آباد کاری (ایرا) نے ایک دستاویز شائع کی ہے جس کے مطابق ’سب سے پہلے سڑکوں اور اہم عمارتوں جیسا کہ ہسپتالوں سے مارچ 2006 تک 20 لاکھ مکعب فٹ سے زیادہ ملبہ ہٹایا گیا۔‘
ایرا کی دستاویزات کے مطابق زلزلے سے متاثرہ عمارتوں میں 1400 مربع فٹ کور ایریے سے 16 ہزار مربع فٹ تک سائز کی عمارتیں شامل تھیں۔
’پہلے سوچا گیا کہ نجی ٹھیکے داروں سے بات کی جائے کہ وہ فی گھر 25000 روپے کے حساب سے ملبہ ہٹائیں گے اور جو چیز دوبارہ استعمال کے لیے کارآمد ہو گی اسے مالک مکان کے حوالے کریں گے۔‘
لیکن دستاویزات کے مطابق یہ پالیسی اس وجہ سے ٹھیک نہیں تھی کہ اس سے گھروں کے مالکان کو قابل استعمال سریے اور دیگر ملبے کی مد میں نقصان بہت زیادہ ہونا تھا۔
بعد ازاں ایرا نے 41 کروڑ روپے کی لاگت سے ملبے کو ہٹانے کے لیے تین سالہ منصوبے کی منظوری دی جو میونسپل کارپوریشن آف مظفرآباد کے زیر انتظام پایہ تکمیل تک پہنچنا تھا، لیکن اس کے لیے جو پالیسی اختیار کی گئی وہ بین الاقوامی معیار کی تھی۔
’اسی معیار کے مطابق پہلے مرحلے میں تقریباً 12 مکعب فٹ کا ملبہ حفاظتی تدابیر کو اختیار کرتے ہوئے ہٹایا گیا، اور اس مقصد کے لیے دریائے نیلم کے کنارے ایک ڈمپنگ سائٹ مختص کی گئی تھی۔‘