ترکی اور شام میں آنے والے زلزلے سے اموات کی تعداد 33 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جب کہ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
دونوں ممالک میں امداد کارروائیاں جاری ہیں اور ایک ہفتے بعد بھی ملبے تلے افراد کو معجزانہ طور پر زندہ بچایا جا رہا ہے۔
گذشتہ پیر کو آنے والے تباہ کن زلزلے کے بعد سے منہدم عمارتوں کے ملبے میں تقریباً سات دن تک پھنسے رہنے کے بعد ایک نوجوان لڑکے اور ایک 62 سالہ خاتون کو معجزانہ طور پر بچا لیا گیا۔
ترکی کی سرکاری خبررساں ایجنسی انادولو کے مطابق سات سالہ مصطفیٰ اور نفیس یلماز نامی خاتون کو جنوب مشرقی ترکی کے صوبے حتائی اور اس کے قصبہ نورداگی سے نکالا گیا۔ دونوں کو اتوار کی رات نکالا گیا اور وہ 163 گھنٹوں تک پھنسے رہے۔
ترکی کے قدرتی آفات سے متعلقہ ادارے کا کہنا ہے کہ ترک تنظیموں کے 32 ہزار سے زائد افراد 8 ہزار 294 بین الاقوامی امدادی کارکنوں کے ساتھ مل کر تلاش و بچاؤ کی کوششوں پر کام کر رہے ہیں۔
سرچ ٹیموں 24 گھنٹے کام کر رہی ہیں کیونکہ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ملبے میں سے لوگوں کو زندہ نکالنے کی امیدیں دم توڑ رہی ہیں۔
کئی علاقوں میں امدادی ٹیموں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس سینسرز اور جدید سرچ آلات کی کمی ہے جس کی وجہ سے وہ صرف بیلچوں یا صرف اپنے ہاتھوں سے ملبے میں کھدائی کر رہے ہیں۔
شمال مغربی شام کے علاقے جبلہ میں شہری دفاع کے سربراہ العا مبارک نے کہا کہ ’اگر ہمارے پاس اس قسم کا سازوسامان ہوتا تو ہم سینکڑوں زندگیاں بچا سکتے تھے۔‘
شمالی شام میں امداد کا فقدان
اقوام متحدہ نے شام کے جنگ زدہ علاقوں میں انتہائی ضروری امداد بھیجنے میں ناکامی کی مذمت کی ہے۔
ترکی کے راستے شمال مغربی شام کے لیے سامان لے کر ایک قافلہ پہنچا لیکن اقوام متحدہ کے امدادی ادارے کے سربراہ مارٹن گریفتھس کا کہنا ہے کہ جن کے گھر تباہ ہو گئے ہیں ان لاکھوں افراد کے لیے مزید بہت کچھ درکار ہے۔
گریفتھس نے ٹوئٹر پر کہا کہ ’ہم نے اب تک شمال مغربی شام کے لوگوں کو مایوس کیا ہے۔ وہ بجا طور پر لاوارث محسوس کرتے ہیں۔ وہ بین الاقوامی امداد کے منتظر ہیں جو ابھی تک نہیں پہنچی۔‘
ہفتے کو جنوبی ترکی میں ہونے والے نقصانات کا اندازہ لگاتے ہوئے گریفتھس نے کہا کہ انہیں توقع ہے کہ یہ تعداد ’دوگنی یا اس سے زیادہ‘ ہو جائے گی کیونکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ زندہ بچ جانے والوں کی تلاش کے امکانات کم ہوتے جا رہے ہیں۔
شام میں رسد کی فراہمی سست روی کا شکار ہے جہاں برسوں سے جاری لڑائی کے باعث صحت کا نظام تباہ ہوگیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے نامہ نگار کے مطابق اقوام متحدہ کا 10 ٹرکوں پر مشتمل قافلہ باب الحوا بارڈر کراسنگ کے ذریعے شمال مغربی شام میں داخل ہوا، جس میں شیلٹر کٹس، پلاسٹک کی چادریں، رسی، کمبل، گدے اور قالین تھے۔
تقریبا 12 سال کی خانہ جنگی کے بعد شام کے باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں لوگوں تک بین الاقوامی امداد پہنچانے کا واحد راستہ باب الحوا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے اتوار کو دمشق میں بشار الاسد سے ملاقات کی اور کہا کہ باغیوں کے زیر قبضہ شمال مغربی علاقے کے رہنماؤں نے امداد پہنچانے کے لیے مزید سرحدی گزرگاہوں پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈروس ایڈہانوم گیبریسس نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’وہ اس ہنگامی صورتحال کے لیے سرحد پار اضافی رسائی کے مقامات پر غور کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘
ترکی میں بڑھتا ہوا غصہ
کئی دنوں کے غم اور تکلیف کے بعد ترکی میں عمارتوں کے ناقص معیار کے ساتھ ساتھ تقریبا ایک صدی میں ملک کی بدترین آفت سے نمٹنے کے لیے حکومت کے ردعمل پر غصہ بڑھ رہا ہے۔
ترکی میں سرکاری طور پر 12 ہزار 141 عمارتیں یا تو تباہ ہو گئیں یا انہیں شدید نقصان پہنچا۔
اتوار تک تین افراد کو جیل میں ڈال دیا گیا تھا اور مزید سات افراد کو حراست میں لیا گیا ہے جن میں دو ڈویلپرز بھی شامل ہیں جو سابق سوویت جمہوریہ جارجیا منتقل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔
حکام اور طبی عملے کا کہنا ہے کہ گزشتہ پیر کو آنے والے 7.8 شدت کے زلزلے کے بعد ترکی میں 29 ہزار 605 اور شام میں 3 ہزار 581 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ مرنے والوں کی کل تعداد 33 ہزار186 ہو گئی ہے۔